Ameer ul kunain

امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر20

جاننا چاہیے کہ انسان مخلوق ہے اور اللہ قادرِ مطلق حیّ و قیوم اور غیر مخلوق ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مخلوق کی کیا مجال کہ غیر مخلوق اللہ تک پہنچ کر اس کی معرفت، قرب و وصال اور حضوری حاصل کرے اور اللہ کے جمال کے دیدار سے مشرف ہو۔ قرب و دیدار اور حضوری سے مشرف ہونے کی شرح یہ ہے کہ جو کوئی قرب و دیدار سے مشرف ہونے کا انکار کرتا ہے وہ لعنتی اور بے دین ہے۔ مطلب یہ کہ ظاہری علم، ذکر، فکر، تلاوت، وظائف، مراقبہ اور مجاہدہ قربِ الٰہی اور توحید کی راہ اور دیدار سے مشرف کرنے والے علم سے دور ہیں۔ قرب و دیدارِ حق تعالیٰ سے مشرف ہونے کے اعلیٰ مراتب اور عین العلم تصور اسم اللہ ذات سے حاصل ہوتے ہیں۔ طالب کا دل جب اسم اللہ ذات کے تصور میں محو ہو کر اس سے حاصل ہونے والے علم کے مطالعہ میں غرق ہوتا ہے تو معرفت ِ توحید کا سفر تیز تر ہو جاتا ہے کیونکہ دیدار کا طالب نفس کوبراق کی مثل اپنی سواری بنا کر ہوا اور بجلی کی طرح لمحہ بھر میں دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے۔ بندہ اور خدا کے درمیان کوئی حجاب اور پتھر و پہاڑ نہیں ہیں۔ تاہم یہ مراتب یقین اور اعتبار سے حاصل ہوتے ہیں۔
ابیات:
تا نہ بینم من بچشم خود خدا
نیست باور گفتہ درویش را
ترجمہ: جب تک میں اپنی آنکھوں سے اللہ کا دیدار نہ کر لوں میں کسی درویش کی باتوں پر یقین نہیں کرتا۔
ہر کہ می بیند بود در غرق نور
معرفت توحید اینست حق حضور
ترجمہ: جو دیدار کر لے وہ اس کے نور میں غرق ہو جاتا ہے یہی معرفت ِ توحید اور حضورِ حق ہے۔
بی سری سجدہ کنم حاضر خدا
این نمازے عارفان را از لقا
ترجمہ: میں بے سر ہو کر حق تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتا ہوں۔ عارفین کی یہ نماز قرب و دیدارِ الٰہی سے ادا ہوتی ہے۔
بی سری سجدہ بود ہم بی جبین
نیست آنجا آسمان و نی زمین
ترجمہ: عارفین سر اور پیشانی کے بغیر سجدہ کرتے ہیں کہ لامکان میں نہ آسمان ہے اور نہ زمین۔

بی چشم بینم بخوانم بے زبان
معرفت لاہوت اینست لامکان
ترجمہ: میں بغیر آنکھوں کے دیدار کرتا ہوں اور بے زبان اس کا ذکر کرتا ہوں کہ یہی لاھوت لامکان میں پہنچ کر حاصل ہونے والی معرفت ہے۔
سجدہ در نور است رو رویت دوام
قبلہ در قبلہ بود قبلہ تمام
ترجمہ: جب طالب نور میں غرق ہو کر سجدہ کرتا ہے تب اسے دائمی دیدار حاصل ہوتا ہے اور وہ ہر جگہ اسی قبلہ (ذات) کو دیکھتا ہے کیونکہ ہر طرف وہی قبلہ (ذات) ہے۔
ہر سہ قبلہ قرب بخشد در نماز
معرفت توحید اینست فضل راز
ترجمہ: یہ تینوں قبلہ (نفس، قلب اور روح) نماز میں قربِ الٰہی بخشتے ہیں اور یہی معرفت ِ توحید کا راز ہے۔
نفس نورش قلب نورش روح نور
اہل نوری را نمازی شد حضور
ترجمہ: ایسے نمازی کا نفس، قلب اور روح تینوں نور ہوتے ہیں۔ اہل ِنور کی نمازہی حضوری ہوتی ہے۔
دل پریشان نمازی کی روا
دل بخطرہ نفس شیطان و ہوا
ترجمہ: دل خطرئہ نفس و شیطان اور خواہشات کا شکار ہو تو ایسے پریشان دل کی نماز کیسے ادا ہو سکتی ہے۔
نماز معراج است می بیند خدا
عارفان را در نمازے شد لقا
ترجمہ: نماز معراج ہے جس میں نمازی خدا کا دیدار کرتا ہے اور عارفین کو نماز میں اللہ کا قرب اور دیدار حاصل ہوتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ عارفین دائمی نماز میں مشغول ہوتے ہیں اور عارفین کا دل بھی ہمیشہ نماز میں غرق ہوتا ہے اور عارفین کی روح بھی مکمل طور پر نماز میں مشغول ہوتی ہے۔ عارفین کی نماز راز ہوتی ہے اور وہ نماز میں اسرار ہی بیان کرتے ہیں۔ مرشد نور الہدیٰ علم ِ دیدار سے کَفٰی بِاللّٰہ  (ترجمہ: میرے لیے اللہ ہی کافی ہے) کا سبق دیتا ہے اور صادق طالبلَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوْ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا۔ (المزمل۔9) ترجمہ:’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تم اسی کو اپنا کارساز بناؤ‘‘ کا علم سیکھتا ہے۔ ایسا مرشد دیدار سے مشرف کرنے والا مخدوم ہوتا ہے۔ اور جو مرشد طالب ِ مولیٰ کو ذکر، فکر، مراقبہ اور حبس ِ دم کا سبق دیتا ہے تو وہ طالب اپنی منزل تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا کیونکہ ناقص مرشد معرفت ِ الٰہی سے محروم ہوتا ہے۔ لیکن معرفت حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں اور معرفت کا سب سے بہترین طریقہ توفیق ِ الٰہی اور تحقیق سے دیدار سے مشرف ہونا ہے۔ سن! اگر مادرزاد (باطنی طور پر) اندھے شخص سے کہا جائے کہ دیدارِ پروردگار کر ،تو وہ کہتا ہے کہ دیدار قیامت کے روز ہوگا۔ ایسا کہنے والا مکمل طور پر پردہ و حجاب میں ہے جبکہ اہل ِ چشم ِ بینا (صاحب ِ بصیرت) دائمی طور پر اللہ رحمن کے بے حجاب دیدار سے مشرف ہوتے ہیں اور نہ کسی سے گھبراتے ہیں کیونکہ ان کے لیے آج اور کل (دنیا اور عقبیٰ) برابر ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ کَانَ فِیْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی  (بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: اور جو اس دنیا میں (دیدار سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔
ابیات:
ہر کہ در دنیا نہ بیند حق لقا
بے نصیبے او بود آخر کجا
ترجمہ: جس نے اس دنیا میں حق تعالیٰ کا لقا حاصل نہ کیا تو اس بے نصیب کو آخرت میں کہاں سے ہوگا۔
آخرت او حور خواہد ہم قصور
بے نصیبے او ز دیدارش حضور
ترجمہ: وہ آخرت میں حور و قصور کا طلبگار ہوتا ہے اس لیے اللہ کے دیدار اور حضورِ حق اس کا نصیب نہیں ہوتے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (النجم۔17)
ترجمہ: (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی) نظر نہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی۔
اے احمق و بے حیا! یہ مراتب ِلقا عارفین کا نصیب ہیں۔ ابیات:
از ناف تا سر جلوۂ انوارِ حق
آنچہ می بینم ازان دیدارِ حق
ترجمہ: میرے پورے وجود میں انوارِ حق کا جلوہ ہے اور میں جس طرح بھی دیکھتا ہوں دیدار ہی کرتا ہوں۔
حق و باطل را کنم تحقیق تر
میبرم دیدار طالب را نظر
ترجمہ: میں حق و باطل کی تحقیق کرنے والا ہوں اور طالب ِ دیدار کو اپنی نگاہ (کی تاثیر) سے حضورِ حق میں لے جاتا ہوں۔
زندگی شد بالقا بینندگی
بی لقائش زندگی شرمندگی
ترجمہ: اس کے قرب و دیدار میں مشغول رہنا ہی اصل زندگی ہے جبکہ دیدار کے بغیر زندگی محض شرمندگی ہے۔
جو عارف مرشد (بیعت کے) پہلے ہی روز طالب ِ مولیٰ کو ربّ کریم کے دیدار کی عظیم دولت عطا نہیں کرتا وہ مرشد لائق ِ ارشاد نہیں۔ نورِ الٰہی کا حامل عارف مرشد وہ ہے جو طالب ِ مولیٰ کو باطن میں دائمی دیدار سے مشرف کر دے جبکہ ظاہر میں طالب کو مطالعہ ٔ علم میں مشغول اور شریعت میں ہوشیار رکھے۔ جان لو کہ جس طرح خضر علیہ السلام نے ظلمات سے آبِ حیات حاصل کیا اسی طرح عارفین تصور اسم ِاللہ ذات سے (دائمی) حیات پاتے ہیں۔ بیت:
خضر را طالب کنم بہر از خدا
منکہ طالب با حضوری مصطفیؐ
ترجمہ: چونکہ میں وہ طالب ہوں جسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہے اس لیے میں خدا کی خاطر خضر کو اپنا طالب بناتا ہوں۔
حضرت خضر ؑ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کے مرتبہ فقر سے رات دن عبرت و حیرت میں ڈوبے رہتے ہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت اللہ تعالیٰ کے قرب میں دائمی دیدار سے مشرف اور رحمت ِ الٰہی کی بدولت اللہ کی بارگاہ میں منظور ہے۔ ابیات:
خضر را خبری نباشد از قرب وحدت لقا
شرف امت را تمام از مصطفیؐ
ترجمہ: خضر ؑ کو اللہ کے قرب ، دیدار اور وحدت کی خبر نہیں کیونکہ یہ شرف صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کو حاصل ہے۔
فکر فرحت نفس و ذکر راہزن
طالبان دیدار را بس این سخن
ترجمہ: فکر نفس کی راحت کا باعث اور ذکر راہزن ہے۔ طالبانِ دیدار کے لیے بس یہی بات کافی ہے (کہ وہ دیدار میں محو رہتے ہیں)۔
باتوجہ میبرم دیدارِ حق
زیر پائے تو شود جملہ طبق
ترجمہ: میں تجھے توجہ سے دیدارِ حق تک عطا کر سکتا ہوں اور اس مرتبہ پر پہنچا سکتا ہوں جس سے جملہ طبقات تیرے قدموں تلے ہوں گے۔
با الف اللہ رسانم باحضور
این مراتب عارفان است غرق نور
ترجمہ: میں تجھے اللہ کے الف (اسم اللہ ذات) سے حضورِ حق میں پہنچا سکتا ہوں۔ یہ نور میں غرق عارفین کے مراتب ہیں۔
عالم شدم در علم توحید از خدا
احتیاجی نیست علم از سر ہوا
ترجمہ: میں حق تعالیٰ سے علم ِ توحید پڑھ کر عالم بن گیا ہوں اب مجھے دوسرا کوئی بھی علم پڑھنے کی ضرورت نہیں جو محض خواہشاتِ نفسانی کا باعث ہیں۔
علم شیطان است کبر و بے کرم
گر بگویم کہ انا شیطان میشوم
ترجمہ: اگر علم تکبر کا باعث ہو تو شیطان ہے اور اللہ کے کرم سے محروم ہے۔ اگر میں ’’مَیں‘‘ کہوں گا تو میں شیطان بن جاؤں گا۔
علم قرآن است قرب و معرفت
علم آن باشد بود نبویؐ صفت
ترجمہ: اگر علم قرب و معرفت ِ الٰہی کا باعث ہو تو قرآن ہے۔ اور علم وہی ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفات کا حامل بنا دے۔
خلق باخُلق است باخالق تمام
نیک خصلت ہمچو نبویؐ والسلام
ترجمہ: اگر اللہ کا قرب حاصل کرنا ہو تو مخلوق کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفات اختیار کرنی چاہیے جو کہ سلامتی کا باعث ہیں۔
جس عالم فقیہ کا نفس طاقتور، دل سیاہ اور مردہ ہو تُو اس سے ہم کلام نہ ہو کہ وہ باطن اور معرفت ِ الٰہی سے بے خبر ہے اور نہ اسے باطن (کے احوال) سے آگاہی ہے کیونکہ اس کی توجہ و نگاہ اپنے نفس پر ہے۔ ہر علم کی اساس اور مغز علم ِ تصوف ہے جو حق تعالیٰ اور رسولِ خدا کے کلام پر مبنی ہے۔ علم ِ تصوف اُم العلم اور ہر علم کی روح ہے۔ علم ِ تصوف سے حی ّ و قیوم ذات کے کل و جز علوم اور حق و باطل کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ جو علم ِ تصوف نہیں پڑھتا وہ سیاہ دل ہوتا ہے جو جہالت و نفاق کی حالت میں رہتا ہے۔ علم ِ فقر بھی فیض ِ الٰہی کی بدولت علم ِ تصوف میں شامل ہے اور یہی علم ِ تصوف راہِ فقر کی بنیاد ہے۔ اللہ کے فضل سے طالب کو تصدیق القلب کی صفت حاصل ہوتی ہے اور اسے حق تعالیٰ کی رفاقت کی توفیق حاصل ہوتی ہے جو اسے باتحقیق صدیق بناتی ہے۔ علم ِ تصوف عارف پر رحمت ِ الٰہی ہے۔ جو علم ِ تصوف سے منع کرتا ہے وہ قومِ زندیق سے تعلق رکھتا ہے۔ ابیات:
گر بے علم عالم شدی بے معرفت
جاہلی علم است خر ِ عیسیٰؑ صفت
ترجمہ: اگر تو عالم ہے اور تیرے پاس تصوف اور معرفت کا علم نہیں تو تُو اصل علم سے جاہل ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کے گدھے کی مثل کتابوں کا بوجھ اٹھانے والا ہے۔
تا نیابی معرفت راہبر خدا
طلب کن مرشد شوی تو اولیا
ترجمہ: جب تک تو معرفت کو نہیں پا لیتا تجھے مرشد کی ضرورت ہے جو تیری راہبری اللہ کی طرف کرے۔ تو مرشد کی طلب کر تاکہ تو اولیا میں سے ہو جائے۔
طالب سب سے پہلے مرشد سے کل و جز مخلوقات اور ذات کی صفات طلب کرے جو مرشد کے ایک لفظ ’’کن‘‘ کی طاقت سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ لفظ مرشد کے چار حروف ہیں م،ر،ش،د۔ حرف ’’م‘‘ سے مرشد مشاہدئہ حضورِ حق اور معرفت و معراج عطا کرتا ہے۔ حرف ’’ر‘‘ سے نورِ توحید میں غرق کر کے رازِ حق تک پہنچاتا ہے۔ حرف ’’ش‘‘ سے مرشد شہسوار عارف ہوتا ہے جو اہل ِ قبور کی ارواح کے احوال دیکھنے والا ہوتا ہے۔ حرف ’’د‘‘ سے طالب کو دائمی الہام عطا ہوتا ہے۔ لفظ طالب کے بھی چار حروف ہیں ط، ا، ل، ب۔ حرف ’’ط‘‘ سے طالب طاعت ِ مرشد میں مشغول رہتا ہے اور اس کی بندگی کا طوق اپنی گردن میں ڈالتا ہے اور حق تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ہمیشہ مصروف رہتا ہے۔ حرف ’’ا‘‘ سے طالب کا ارادہ صادق ہوتا ہے اور وہ مرشد کا باادب ہوتا ہے۔ جو بھی آزمائش اس پر آئے وہ اف نہیں کرتا۔ حرف ’’ل‘‘ سے طالب لایحتاج اور لقائے الٰہی کے لائق ہوتا ہے جو کبھی بھی لاف زنی نہیں کرتا۔ حرف ’’ب‘‘ سے طالب بہرہ مند (خوش قسمت)، باوفا اور باحیا ہوتا ہے اور اس کا قلب پاکیزہ اور وہ تقدیر پر راضی رہنے والا ہوتا ہے۔ مرشد کے چاروں حروف طالب کے چاروں حروف سے اس طرح بدل جاتے ہیں کہ طالب مرشد کے وجود، جان، جسم، قلب اور قالب کے ساتھ یکتا ہو جاتا ہے۔ جو کچھ مرشد کی زبان پر ہوتا ہے طالب کی زبان سے بھی وہی ادا ہوتا ہے۔ طالب کی آنکھیں مرشد کی آنکھیں، طالب کے کان مرشد کے کان، طالب کا قلب مرشد کا قلب، طالب کی روح مرشد کی روح، طالب کے ہاتھ مرشد کے ہاتھ اور طالب کے پاؤں مرشد کے پاؤں بن جاتے ہیں۔ یہ فنا فی الشیخ کی حالت ہوتی ہے۔ وہ طالب مرتبہ ٔ مرشد کے لیے منتخب ہوتا ہے۔ طالب کا نفس مرشد کے نفس کی مثل مر جاتا ہے اور اس کا قلب مرشد کے قلب کی مثل حیات پا جاتا ہے اور اس کی روح فرحت پاتی ہے۔ فنا فی الشیخ کے اس مرتبہ پر مرشد و طالب کا نام، اطوار اور طریقے ایک جیسے ہو جاتے ہیں اور طالب کی صورت سے مرشد کی صورت نظر آتی ہے۔ مرشد کی رفاقت طالب کے لیے یقینا توفیق ِ حق کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ یہ مرتبہ جمعیت ہے جہاں مرشد کے تمام خوبصورت اوصاف طالب میں جمع ہو جاتے ہیں اور اسے مرشد کے ساتھ لازوال وصال نصیب ہوتا ہے۔ مرشد کل اور توحید کی صورت ہے جیسا کہ اللہ نے اس فرمان میں فرمایا:
یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (الفتح۔10)
ترجمہـ ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
بیت:
گر بیائی طالبا حاضر خدا
درمیان پردہ نماند شد لقا
ترجمہـ: اے طالب! اگر تو آئے تو میں تجھے حضورِ حق میں پہنچا دوں گا جہاں تو ایسے دیدار کرے گا کہ تیرے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہوگا۔
مرشد کی کاملیت حضورِ حق میں پہنچانے کی صلاحیت سے پتا چلتی ہے کہ وہ ایک ہی نگاہ سے کل و جز کے سب مراتب طے کرا دیتا ہے۔ بیت:
اگر تو طالب صادقی با ما بیا
شد مشرف در مجالس مصطفیؐ
ترجمہ: اگر تو صادق طالب ہے تو ہمارے پاس آ۔ ہم تمہیں مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کر دیں گے۔
جان لو کہ طریقہ قادری میں طالب مرید پھول کی مثل ہے جبکہ دوسرا ہر طریقہ پھول کے گرد کانٹوں کی مثل ہے اور مکمل طور پر خوار اور نفس کی قید میں ہے۔ قادری طریقے کا طالب مرید بااعتبار ہوتا ہے۔ اسے ذکر، فکر اور مراقبہ کرنے کی کیا ضرورت؟
بیت:
منکہ مرشد قادریم قدر دان
شد قرب قدرت خدا عارف عیان
ترجمہ: میں قادری مرشد ہوں میری قدر پہچان۔ میں وہ عارف ہوں جسے اللہ کا قرب اور بے حجاب دیدار حاصل ہے۔
دیدار سے جمعیت حاصل ہوتی ہے اور دیدارِ الٰہی کے علاوہ سب کچھ مردار ہے۔
بیت:
باھوؒ در ھُو گم شدہ چون آب شیر
انتہا توحید این فی اللہ فقیر
ترجمہ: باھُوؒ ھُو میں ایسے گم ہے جیسے پانی دودھ میں۔ اللہ کے فقیر کی انتہا یہی توحید ہے۔ (جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں