محاسبہ اور مجاہدہ نفس–Mahsba Nafs aur Mujhada Nafs

Spread the love

Rate this post

محاسبہ اور مجاہدہ نفس

تحریر: عرشیہ خان سروری قادری

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نفس کے متعلق فرماتے ہیں :

نفس دانی چیست دیو بس بزرگ
بر مسلمان تاختہ مانند گرگ

ترجمہ:تو نفس کو کیا سمجھتا ہے؟ نفس ایک بہت بڑا دیو ہے جو مسلمانوں پر بھیڑیے کی طرح جھپٹتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ ایک سرکش گھوڑا ہے جو اگر قابو آجائے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں اور اگر قابو میں نہ آئے تو راہِ حق سے بھٹکا دینے کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ نفس ایسا بدبخت اور ظالم ہے کہ خدا ہی اس کے شر سے بچائے۔
خواہشاتِ نفس کا نقشہ قرآنِ حکیم نے یوں کھینچا ہے:
اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ ط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً۔  (الفرقان ۔43)
ترجمہ: کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا تو کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔
جس نے اللہ کے احکام کے مقابلے میں اپنے نفس، اس کے مرغوبات اور خواہشات کو ترجیح دی، جس نے اللہ کے عشق اور اس کے ذکر سے منہ موڑ کر دنیا کی لذتوں کو اپنایا، نفس کی خواہشات پر عمل کیا اور ان کی پیروی کی تو گویا اس نے اپنی خواہش کو وہ مقام دے دیا جو اللہ کا حق تھا۔
حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ من عرف نفسہ بالفناء فقدعرف ربہ بالبقاء ویقال من عرف نفسہ بالذل فقد عرف ربہ بالعز ویقال من عرف نفسہ بالعبودیۃ فقد عرف ربہ بالربوبیۃ ۔
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے ربّ کو پہچانا۔ جس نے اپنے نفس کے فنا کی حقیقت سمجھ لی وہ اپنے ربّ کی بقا کے راز کو پا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو ذلیل جانا اس نے اپنے ربّ کو اس کی عزت کے سبب جانا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو بندگی سے جان لیا وہ اپنے ربّ کی ربوبیت کو سمجھ گیا۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔
سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فی الْاٰفَاقِ  وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۔  (حٰمٓ السجدہ۔ 53) ۔
ترجمہ: عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور خود ان کی اپنی ذات میں دکھائیں گے تاکہ انہیں واضح ہوجائے کہ وہی (اللہ کی ذات) حق ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے نفس آخر ہے کیا؟ کیا نفس کو پہچاننے سے اللہ پاک کی ذات کو پہچانا جاسکتا ہے؟ اپنی ذات اور نفس کا عرفان یعنی نفس کی حقیقت کو پہچاننا ہی اللہ کی معرفت کی کنجی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس کو بڑا عجیب بنایا ہے۔ یہ خواہشات کی آماجگاہ ہے ہر طرح کی بری خواہشات اور باغیانہ خیالات یہاں ہی سے جنم لیتے ہیں یہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ابھارتا ہے اور شہوت کے وقت حیوانوں جیسی حرکتیں کرتا ہے، غصہ میں درندوں کی طرح اظہارِ وحشت کرتا ہے، جب بھوکا ہوتا ہے تو حلال و حرام کی تمیز کھو دیتاہے، جب سیر ہوتا ہے تو باغی، سرکش اور متکبر ہوجاتا ہے، مصیبت کے وقت بے صبروں کی طرح آہ وزاری کرتا ہے۔غرضیکہ انسان کا نفس کسی حال میں بھی خوش نہیں رہتا۔ اس کو قابو میں لانے سے ہی وصالِ الٰہی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ دنیا کی لذتیں، روپیہ پیسہ، عورت، بیٹے، شہرت، خوبصورت شریکِ حیات اور دیگر خواہشاتِ نفس راہِ حق اور اللہ کی معرفت و دیدار سے روکتے ہیں کیونکہ دیدارِالٰہی ایک راز ہے اور اللہ پاک یہ راز اس راز دان کو ہی عطا کرتا ہے جو اس کی کھوج میں اپنا سب کچھ لٹا چکا ہو اور نفس کے ہاتھوں مجبور نہ ہو۔ وہ طالب اس نفس کو خواہشات سے پاک کرنے کے بعد براق کی مثل اسے اپنی سواری بنا کر آگے بڑھتا ہے اور اللہ کے دیدارسے مشرف ہوتا ہے کیونکہ بندہ اور خدا کے درمیان کوئی پہاڑ یاد ریا تو ہے نہیں اگر ہے تو صرف یہ ’’نفس‘‘۔
میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نفس کی حقیقت کو یوں قلم بند فرماتے ہیں:
* ’’ نفس انسانی بدن میں ایسا چور ہے جو انسان کو خدا کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا۔ نفس بندے اور خدا کے درمیان حجابِ اکبر ہے۔ انسانی وجود کیلئے نفس اور شیطان دو ایسی قوتیں ہیں جو ہمیشہ فطرتِ انسانی کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ شیطان جب آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے لعنتی ہوا تو اس نے آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد کی دشمنی اور اس کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ جب آدم ؑ کا بت تیار ہو چکا تو شیطان نے حسد اور نفسانیت کی وجہ سے اس پرتھوک دیا۔ یہ تھوک حضرت آدم علیہ السلام کی ناف کے مقام پر جا پڑی جس سے آدم ؑ کے وجود میں نفس کی بنیاد پڑی۔ نفس شیطان کا قدیمی ہتھیار ہے اور بنی آدم کے وجود میں نفس کے اسی مورچے سے زہر بھرے تیر چلا کر انسان کو گمراہ کرتا رہتا ہے۔ لیکن اگر یہی نفس شیطان کے چکر سے نکل کر بنی آدم کے کنٹرول میں آجائے تو اللہ اور بندے کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتا ہے۔‘‘ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* نفس کیا چیز ہے؟ شیطان کیا چیز ہے؟ دنیا کیا چیزہے؟ نفس بادشاہ ہے، شیطان اس کاوزیر ہے اور دنیا ان دونوں کی ماں ہے جو ان کی پرورش کرتی ہے۔ (عین الفقر)
* نفس مملکتِ وجود میں بادشاہ ہے اور شیطان اس کا وزیر جو ہر وقت مصلحت اندیشی اور خود پرستی کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا’’ ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جسکا حال یہ ہو کہ اگر اس کی عزت و اکرام کرو، اسے کھانا کھلاؤ، کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلا اور مصیبت میں ڈال دے اور اگر تم اس کی تذلیل کرو، بھوکا ننگا رکھو تو تمہارے ساتھ بھلائی کرے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم !اس سے زیادہ برا ساتھی تو دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے ایسا ہی ساتھی ہے۔‘‘

نفس کی اقسام

نفس کی چار حالتیں ہیں۔
۱۔ نفسِ امارہ
۲۔ نفسِ لوامہ
۳۔ نفسِ ملہمہ
۴۔ نفسِ مطمئنہ
۱۔ نفسِ امارہ: ایسا نفس کفار، مشرکین، منافقین، فاسقین اور فاجر لوگوں کا ہوتا ہے اگر اس کی اصلاح اور تربیت نہ کی جائے تو اپنی سرکشی، بغاوت اور طغیان میں ترقی کرتا ہے اور انسان سے حیوان، حیوان سے درندہ بلکہ مطلق شیطان بن جاتا ہے۔ ایسی حالت میں نفس کی باطنی بیماری لا علاج ہوجاتی ہے اور آخر وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔
۲۔ نفسِ لوامہ: اگر نفس کی اصلاح او ر نیک تربیت شروع ہو جائے تو وہ بتدریج باطن میں عالمِ ملکوت اور حیاتِ طیبہ کی طرف ترقی کرتا ہے اور گناہ پر پشیمانی دلاتا ہے۔ ایسے نفس کو روزِ قیامت اور حساب کتاب وغیرہ ہر وقت یاد رہتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبانی روزِ قیامت کے ساتھ ایسے نفس کی بھی قسم اٹھاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ وَلَآ اُقسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ ۔ (القیمۃ۔1-2 )
ترجمہ: خبردار! میں قسم کھاتاہوں روزِ قیامت کی اور قسم کھاتا ہوں نفسِ لوامہ (یعنی گناہوں پر ملامت کرنے والے نفس) کی۔
۳۔ نفسِ ملہمہ: اس کے بعد نفس کا جب مزید تزکیہ ہوتا ہے تو وہ لوامہ سے ملہمہ ہو جاتا ہے۔ ایسا نفس گناہ کے ارتکاب سے پہلے اہلِ نفس کو تائیدِ غیبی سے الہام کرتا ہے کہ خبردار! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور گناہ سے باز آجاؤ۔ ایسے ہی نفس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔  (النازعات۔ 40-41 )
ترجمہ: اور جو شخص قیامت کے روز اللہ کے روبرو (حساب کیلئے) کھڑا ہونے سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشاتِ نفسانی سے باز رکھا پس اس کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔
۴۔ نفسِ مطمئنہ: نفس جب باطن میں ترقی او رعروج حاصل کرتا ہے اور اس کا تزکیہ ہوجاتا ہے تو وہ ’’نفس مطمئنہ ‘‘ ہو جاتا ہے گویا نفس اس ازلی راہزن شیطان سے نجات پا کر اپنی منزلِ حیات تک پہنچ کر اپنے مقصود کو حاصل کر لیتا ہے۔ ایسے نفس و الا سالک اللہ تعالیٰ کا دوست اور مقرب بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے راضی اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایسے نفسِ مطمئنہ کے بارے میں فرماتا ہے:
ٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَّۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۔(الفجر۔27-30 )
ترجمہ: اے نفس مطمئنہ ! لوٹ اللہ کی طرف ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے راضی ہے۔ بس میرے بندگانِ خاص کے حلقہ میں شامل اور میری بہشت (قرب و وصال)میں داخل ہوجا۔
معلوم ہوا نفسِ مطمئنہ وہ نفس ہے جو بارگاہِ خداوندی میں مقبول و منظور ہے۔ ایسا پاکیزہ نفس انبیا اور اولیا کا ہوتا ہے۔ نفس کا یہ مقام بہت اعلیٰ اور نایاب ہے۔ یہ مراتب و مقام اسمِ اللہ  ذات کے ذکر وتصور اور مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ سے حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ساری عمر کی زہد و عبادت سے کمر کبڑی ہوجائے اور سوکھ کر کانٹا ہو جائے تب بھی نفس کا یہ انمول مقام حاصل نہیں ہوتا۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب انسان کے جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو وہ معالج کے پاس جاتا ہے اگر تکلیف زیادہ ہو اور جسم کے کسی حصہ میں زہر پھیل رہا ہو تو فوراً وہ حصہ جسم سے جدا کرنا پڑتا ہے تاکہ جسم کا دوسرا حصہ متاثر نہ ہو۔ ایسے ہی جب قلب و روح نفس کی پیروی کر کے بیمار ہونے لگیں تو یہاں بھی روحانی معالج یا طبیب کا کردار درکار ہے جو نفس جیسے ناسور کو کاٹ پھینکے کیونکہ اسمِ  اللہ ذات اور مرشد کامل اکمل کی باطنی توجہ سے نفس مردہ اور قلب زندہ ہوجاتا ہے۔ نفس اگر پاک ہوجائے تو معرفت و توحید کے علاوہ دیگر کوئی راہ نہیں دیکھتا۔ طالبِ مولیٰ کا قلب جو کہ ذکرو تصور اسمِ  اللہ ذات اور مرشدکی نگاہ کامل سے نفس سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور وہ ہر قسم کی شکایت کرنے سے باز آجاتا ہے اور کامل مرشد کی مہربانی سے طالب تلقین و ہدایت کے لائق بن جاتا ہے اور اللہ پاک کی رضا میں ہر دم راضی رہتا ہے۔ ایسے نفس کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

ایہو نفس اساڈا بیلی، جو نال اساڈے سِدّھا ھُو
زاہد عالم آن نوائے، جِتھے ٹکڑا ویکھے تِھدّا ھُو
جو کوئی اِس دی کرے سواری، اُس نام اَﷲ دا لِدّھا ھُو
راہ فقر دا مشکل باھوؒ ، گھر ما نہ سیرا رِدّھا ھُو

مفہوم: یہ نفس اب مطمئنہ ہو کر ہمارا دوست اور ساتھی بن چکا ہے اور اب ہمارے ساتھ صراطِ مستقیم پر ہے۔ جبکہ اسی نفس نے امارہ کی حالت میں کئی عالموں‘ فاضلوں اور زاہدوں کو خواہشات کا غلام اور مال و دولت کا حریص بنا دیا ہے اور جہاں سے مال و زر ملنے کی امید ہوتی ہے وہیں دین کے ذریعے دنیا خرید لیتے ہیں۔ جس نے مرشد کامل سے اسمِ  اللہ ذات حاصل کر لیا تو اس کے ذکر اور تصور سے اس کا نفسِ امارہ سے مطمئنہ ہو گیا۔ فقر کے راستہ میں بڑے مشکل مراحل‘ منازل اور آزمائشیں ہیں یہ کوئی اماں جی کا گھر میں پکا پکایا حلوہ نہیں ہے کہ اسے آسانی سے کھا لیا جائے۔

محاسبہ اور مجاہدہ نفس

محاسبہ نفس

مندرجہ بالا تحریر کا نچوڑ یہی ہے کہ نفس جب قلب پر غالب آتا ہے تو ساتھ ہی سمندر کے پانی کی طرح سب اچھائیاں بہا کر لے جاتا ہے اور قلب پر گھیرا کر لیتا ہے۔ اس کے شکنجے سے نکلنا ایسا ہی ہے جیسے شیر کے منہ سے اسکا شکار کھینچنا۔ مگر جو قلب اس کی چالاکیوں سے آشنا ہے اور اس شیر کے وحشی وار کو سمجھ لیتا ہے تو بچ کر نکل جاتا ہے۔ مرشد کامل اکمل کی راہبری اور اسمِ  اللہ ذات کا ذکر اور تصور اس وحشی اور ظالم نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور اسے نفسِ مطمئنہ کے مقام پر لاتا ہے اور محاسبہ نفس جیسی صفت سے ہمکنار کراتا ہے۔ ایسے ہی نفس کے بارے میں فرمایا گیا جو مرشد کامل اکمل کی عطا ہے۔
* ’’ نفس مطمئنہ ایک سواری ہے جس کی رسائی رازِ الٰہی تک ہے اور یہ مشاہدۂ توحیدِ حق تک پہنچاتی ہے۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
مگر ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا:
* ’’طالبِ اللہ کو چاہئے کہ ہر دم اور ہر گھڑی رات دن نفس کی مخالفت کرتا رہے کسی وقت بھی اس سے غافل نہ رہے کیونکہ نفس کافر ہے۔‘‘ (عین الفقر)
جب طالبِ مولیٰ راہِ فقر اختیار کرتا ہے تو نفسانی خواہشات اور وسوسے اس پر پہلے سے زیادہ حملہ کرتے ہیں تاکہ اسے اس راہ سے بدگمان کریں۔ سچا طالب نفس کی اس چال کو سمجھ جاتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر اپنے نفس کی نگرانی کرتا ہے اور دن رات اس کا محاسبہ کرتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’جب تو دیکھے کہ کسی کام یا گناہ کی ہمت تیرے دل میں پیدا ہوتی جارہی ہے اسی وقت خدا سے ڈر اور اس سے پرہیز کر۔‘‘
توبہ کے برقرار رہنے اور توبہ کی استقامت کیلئے نفس کے محاسبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خالص طالبِ مولیٰ ہر دم پشیمان رہتا ہے اسے نہ تو توبہ کرنے اور نہ ہی محاسبہ نفس کرنے سے چھٹی ملی ہے۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
* اس سے پہلے تمہارا محاسبہ کیا جائے اپنے نفس کا خود محاسبہ کرو۔
* تم اللہ کے حضور سب سے بڑی پیشی کیلئے خود کو ہر لمحہ تیار رکھو۔ جب تم اس دن پیش ہوگے تو کوئی پوشیدہ بات تم سے پوشیدہ نہ رہے گی۔
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں ’’اے لوگو! اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال ترازوئے عدل میں جائیں تم خود ہی ان کا وزن کر لو۔‘‘ حضرت عمرؓ رات کو جب گھر تشریف لاتے تو ایک درہ زور سے اپنے پاؤں پر مارتے اور (اپنی ذات سے) کہتے بتا تو نے آج کیا کچھ کیا؟
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میرے والد حضرت ابوبکرؓ اپنی وفات کے وقت فرما رہے تھے ’’میں عمر فاروقؓ سے زیادہ کسی کو محبوب نہیں رکھتا ‘‘ پھر فوراً ہی کہا اے عائشہؓ! میں نے ابھی کیاکہا تھا؟ میں نے ان کے الفاظ ہوبہو دہرائے۔ فرمایا ’’مطلب یہ تھا کہ زندہ لوگوں میں سے مجھے عمرؓ سے زیادہ کوئی شخص بہتر نہیں لگتا۔‘‘ تو اندازہ کیجئے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے احتیاط کلام کا زبان کی اس چھوٹی سی لغزش کا محاسبہ کر لیا اور جب دیکھا کہ بظاہر درست نہیں تو اصلاح کر دی۔
حضرت ابن سلامؓ نے لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ بازار سے گزر ہوا تو لوگ کہنے لگے کہ یہ کام تو آپ کا غلام بھی کر سکتا تھا۔ فرمایا ’’میں نے نفس کو غلام بنا لیا اور یہ گٹھا اسی کی آزمائش کیلئے اٹھا رکھا ہے کہ دیکھوں وہ کیسے محسوس کرتا ہے۔‘‘
حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کو باغ میں تنہا کھڑے دیکھا۔ میں نے دیوار کی اوٹ میں کھڑے ہو کر سنا کہ وہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے ’’واہ! لوگ تمہیں امیر المومنین کہتے ہیں تو تمہیں خداکی قسم! ہمیشہ خدا سے ڈرتے رہو ورنہ اپنے آپ کو عذاب و سزا کیلئے تیار رکھو۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں ’’نفس کی نگہبانی کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ملامت کرتے رہو فلاں کام کیوں کیا؟اور فلاں چیز کیوں کھائی؟ الغرض اپنے امور کا محاسبہ اہم ترین ذمہ داری ہے۔‘‘
حضرت ابن العمر ؒ ایک بزرگ تھے ایک دفعہ انہوں نے اپنی عمر کا حساب کیا تو ساٹھ برس بنے پھر دنوں کا حساب کیا تو اکیس ہزار نو سودن نکلے اور (60 x 365 ) اور پھر کہا آہ اگر ہر روز ایک گناہ بھی سرزد ہوتا رہا تو اکیس ہزار نو سو گناہ بن جاتے ہیں ان سے نجات کیوں کر ہوگی؟ اور اگر یہ بھی ملحوظ رکھوں کہ بعض دن ایسے بھی گزرے کہ جب ایک ہی دن میں شاید ہزار گناہ بھی سرزد ہوتے ہوں یہ کہہ کر ایک نعرہ مارا اور گر پڑے۔ لوگوں نے دیکھا تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ (کیمیائے سعادت)
قرآن و حدیث اور صحابہ و اولیا کی نفس کے خلاف اس قدر تاکید کے باوجود بندہ اپنے نفس سے غفلت برتتا ہے اسے آزاد و بے مہار اور بے حساب چھوڑ دیتا ہے کوئی نگرانی نہیں کرتا۔ جو شخص اپنے نفس پر قاضی نہیں بنتا اور نہ ہی دن رات اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ انسان کیسے ہوسکتا ہے وہ تو حیوانات سے بھی بدترہے۔
طالبِ مولیٰ اللہ کی محبت اور اس کے قرب و وصال کے حصول کی طلب رکھتا ہے اور اسکی ہی جستجو میں بے چین رہتا ہے۔ وہ نفس کا دشمن اور ربّ کا عاشق ہوتا ہے۔ پس طالبِ مولیٰ کا حوصلہ اور یقین اس نفس مردود کے آگے پختہ ہونا چاہیے۔ اگر باطل اور نفس آواز دیں یا اکسائیں تو اس کا عشقِ الٰہی اسے باطل کی طرف راغب نہ ہونے دے ۔
حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
* اپنے نفس کے محاسبہ کیلئے خود قاضی بن اور اس کافر کو مارنے کیلئے مردِ غازی بن۔ (عین الفقر)
* اے نفس! راحت کو چھوڑ تاکہ تو اللہ تعالیٰ کا دوست بن جائے اور تیرے سب کام اللہ تعالیٰ کر ے۔ (عین الفقر)
غرضیکہ محاسبہ نفس کرتے وقت کوئی بھی عمل یا سوچ آئے تو دیکھے اس کا اپنا ذاتی مفاد تھا یا اللہ پاک کی خوشنودی۔ مندرجہ ذیل باتوں کا خیال کرے:
* جو کچھ چاہے اپنے ربّ اور مولیٰ کیلئے چاہے اپنے نفس کیلئے نہیں۔
* جو عمل کرے اللہ کی رضا کے لیے کرے نہ کہ اپنے مفاد یا نام کے لیے۔
* جب کسی کی صحبت اختیار کرے تو وہ صحبت بھی اللہ کے لیے ہو اوراس سلسلے میں ایسے کام کرے جن سے اللہ تعالیٰ کی قربت بڑھتی چلی جائے۔

مجاہدہ نفس

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
یوَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ۔(العنکبوت۔69)
ترجمہ: ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم اپنے راستے کی طرف ان کی رہنمائی ضرور کریں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی:
اَلْمجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ فِی اللّٰہِ۔ 
ترجمہ: ’’ مجاہد وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتا ہے ۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ اْلاَکْبَرِ ۔ ترجمہ: ’’ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس جارہے ہیں۔‘‘
قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا الْجِھَادِ الْاَکْبَرُ قَالَ اَلآ وَھِیَ مُجَاھِدَ النَّفْس۔ 
ترجمہ: ’’عرض کی گئی یارسول اللہ! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا یاد رکھنا وہ نفس کا مجاہدہ کرنا ہے۔‘‘
سید علی بن عثمان ہجویریؒ فرماتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجاہدۂ نفس کو جہاد پر فضیلت دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مجاہدۂ نفس جہاد کرنے اور جنگ میں شرکت کرنے سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ نفسانی خواہشات کی خلاف ورزی کرنا اور نفس کو مغلوب کرنا بہت مشکل کام ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقصود کے حصول، قربِ حق پانے، آخرت کی عافیت حاصل کرنے اور نیک ہونے کے باوجود بھوک، صوم و صلوٰۃ اور شب بیداری کی صورت میں مجاہدے کئے یہاں تک کہ قرآن کا یہ حکم نازل ہوا:
طٰہٰ ۔مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی۔(طٰہ 1-2)
ترجمہ: ’’ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ! ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نہیں نازل کیا تھا کہ آپ مشقت کا شکار ہو جائیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد نبویؐ کی تعمیر کے دوران خود اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دقت ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا ! یارسول اللہ! اینٹیں مجھے دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حصے کی ساری اینٹیں میں اٹھاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
یَا اَبَاھُرَیْرَۃِ خُذْ غَیْرَھَا فَاِنَّہُ لَا عَیْشَ اِلاَّ عَیْشَ الْاٰخِرَۃِ۔ 
ترجمہ: اے ابو ہریرہؓ! تم دوسری لے لو کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔
حضرت حیان بن خارجہؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پوچھا ! آپ جہاد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟انہوں نے فرمایا: ’’اپنے نفس سے مجاہدہ کا آغاز کر اور یہیں سے اپنی جنگ شروع کر۔ اگر تو لڑائی سے بھاگتا ہو امارا گیا تو اللہ تعالیٰ تجھے اسی حالت میں اٹھائے گا اور اگر تو ریاکاری میں مارا گیا تو روزِ قیامت تیری بعثت بھی اس طرح ہوگی اور اگر تو صبر و شکر کی حالت میں قتل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ تجھے صابر و شاکر اٹھائے گا۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
* ’’میں اور نفس ایسے ہیں جیسے بکریوں کا چرواہا، جو ایک طرف سے بکریوں کو اکٹھا کرتا ہے تو دوسرے جانب سے بکھر جاتی ہیں۔ جس نے اپنے نفس کو مارلیا وہ رحمت کے کفن میں کفنایا جائے گا اور عزت و آبرو کی زمین میں دفن ہو گا اور جس نے اپنے دل کو مردہ کر دیا اسے جہنم کے کفن میں کفنایا جائے گا اور عذاب کی زمین میں دفن کیا جائے گا۔‘‘
یحییٰ بن معاذ رازی ؒ فرماتے ہیں ’’عبادت اور ریاضت کر کے اپنے نفس کے خلاف جہاد کر۔ ریاضت کا معنی یہ ہے کہ نیند سے دور رہنا، کم گفتگو کرنا، لوگوں کی طرف سے تکالیف کو برداشت کرنا اور کم کھانا۔ نیند کی کمی سے ارادے پاک ہوں گے، کلام میں کمی سے آفات سے تحفظ رہے گا، لوگوں کی طرف سے اذیت برداشت کرنے سے مقاصد تک رسائی حاصل ہوگی اور کم کھانے سے شہوات ختم ہو جائیں گے کیونکہ بسیار خوری سے دل سخت اور اس کا نور غائب ہو جاتا ہے۔ دانائی بھوک سے ملتی ہیں اور بسیار خوری اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:
’’ بھوک سے دلوں کو منور کرو ، بھوک اور پیاس کے ذریعہ نفس کے خلاف جہاد کرو، بھوک کے ذریعہ ہمیشہ جنت کا دروازہ کھٹکٹاتے رہو۔ بھوک میں اسی طرح اجر ہے جس طرح مجاہد فی سبیل اللہ کیلئے اجر وثواب ہے۔ بھوک اور پیاس سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں۔ جس نے اپنا پیٹ بھر لیا اس نے عبادت کی حلاوت کھو دی۔‘‘ (مکاشفۃ القلوب)
مجاہدہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب ایک طالب کو اپنے اعمال و افعال کے عیبوں اور خامیوں کا علم ہو، اسی کی بدولت توبہ کا درست ہونا ممکن ہے اور توبہ اس وقت تک درست نہیں ہوسکتی جب تک سچے دل سے اپنے عیبوں کی درستگی کی نیت سے مجاہدہ اور ریاضت نہ کی جائے اور مقصود کے حصول تک صبر کا دامن نہ چھوڑا جائے ۔
حضرت عتبعہ الغلام ؒ مجاہدہ کی کثرت کی بنا پر لذیذ غذاؤں سے پرہیز کرتے۔ ایک دن ان کی والدہ نے فرمایا ’’بیٹااپنی ذات پر کچھ تو رحم کرو۔‘‘ آپؒ نے فرمایا ’’اے ماں! رحم ہی تو اس رحیم سے مانگتا ہوں یہ تو چند دن کی بات ہے۔ یہ اگر رنج برداشت کرنے میں گزر جائیں تو ہمیشہ کی راحت نصیب ہوجائے گی۔‘‘
سید نا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
* اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے والے اور گناہوں سے توبہ کرنے والے شخص کے لیے موت ایسی ہے کہ جس طرح پیاسے آدمی کا ٹھنڈا پانی پینا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 18 )
* جب مومن آخر دم تک نفس کے ساتھ مجاہدہ باقی رکھتا ہے اور اللہ سے اس حال میں جا کر ملتا ہے کہ نفس کی خواہش کو قتل کرنے والی خون آلودہ تلوار اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اسے وہ ساری نعمتیں عطا فرمائے گا جسکا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے ’’اور وہ جو اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈر ا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بیشک اسکا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہی ہے۔‘‘ (فتوح الغیب۔ مقالہ67 )
جیسے اللہ پاک نے خیر اور شر کی تخلیق فرمائی، رات دن، آگ و پانی، حق و باطل ویسے ہی طالبِ دنیا اور طالب مولیٰ میں بھی متضاد صفات رکھیں۔ طالبِ مولیٰ کی نظر حق پر ہوتی ہے اس کے لیے ما سویٰ اللہ سب ہوس ہے۔ اسکا خمیر اور دل عشقِ الٰہی کے جذبے سے گوندھا گیا ہے اس پر نہ تو دنیا غالب آسکتی ہے نہ نفس۔ ایسے طالبِ حق کیلئے اللہ پاک شیطان سے فرماتا ہے:
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکََ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ۔ (الحجر۔ 42)
ترجمہ: ’’میرے بعض بندے ایسے ہیں جن پر تمہیں قابو حاصل نہیں ہوسکے گا۔‘‘
جیسے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمرؓ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا مِنْ اَحَدٍ اِلَّا وَ قَدْ غَلَبَ شَیْطَانَہٗ اِلَّا عُمَرَ فَاِنَّہٗ غَلَبَ شَیْطَانَہٗ۔ 
ترجمہ: ’’اور کوئی شخص ایسانہیں جو اپنے شیطان پر غالب ہو سوائے عمرؓ کے کیونکہ وہ اپنے شیطان پر غالب ہے۔‘‘
مرشد کامل اکمل ہمیشہ قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے اور ویسے ہی طالب کی تربیت فرماتا ہے جیسے حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرامؓ کا تزکیہ نفس فرماتے تھے۔ میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ فقیر مالک الملکی ہیں جن کی نگاہِ کیمیا اثر کی کوئی حد نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس زنگ آلودہ قلوب کو پاک فرماتے اور طالبِ مولیٰ کا تزکیہ نفس فرماتے ہیں اس کے ساتھ ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتے ہیں جس سے قلب روشن اور نفس ہر شے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ جو سالک ضبطِ نفس سے آگاہ ہو گیا اور نفس کی خواہشات سے باز آگیا وہ دنیا و آخرت میں فلاح پا گیا۔ اس کا باطن جب ذکر اور مرشد کامل اکمل کی نگاہِ کامل سے ترقی کرتا ہے اور نفس کا تزکیہ ہوتا جاتا ہے تو باطن انوارِ تجلیات سے لبریز ہوجاتا ہے۔
جب نفس پاک اور مومن ہوجاتا ہے تو اسکی مدد راہِ خداوندی سے ہوتی ہے اور اس کی خواہشات مٹانے کیلئے اللہ خود اسے قوت و عزیمت عطا کرتا ہے جس سے قلب نفس پر حاوی آجاتا ہے۔ غرضیکہ یہ تمام مراحل مرشد کامل اکمل کی پاک صحبت سے ہی ممکن ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ایسے کامل مرشد اکمل کی صحبت ہم سب کے نصیب میں لکھ دے۔ آمین
استفادہ کتب
عین الفقر تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ
امیرالکونین تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ
کلید التوحید کلاں تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
ابیات باھوؒ کامل۔ تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
کیمیائے سعادت تصنیف امام غزالیؒ
مکاشفۃ القلوب تصنیف امام غزالیؒ


Spread the love

محاسبہ اور مجاہدہ نفس–Mahsba Nafs aur Mujhada Nafs” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں