یقین | Yaqeen


4/5 - (1 vote)

یقین

تحریر: مسز روبینہ فاروق سروری قادری۔لاہور

یقین کس کو کہتے ہیں ۔ یہ کیا ہوتا ہے؟
کسی انسان کو سچا مان کر اُس پر اس قدر اعتماد کرنا کہ اُس کے ساتھ وفا بھی کرے او ر اُس کے لیے جان و مال بھی قربان کر دے، صدقِ دل اور خلوص کے ساتھ اُس کی ہر بات کو سچ سمجھے خواہ کوئی اُس کے کتنا ہی خلا ف کرنے کی کوشش کرے لیکن وہ اُس پر اعتبار کرنے پر ڈٹا رہے اور دل اُس پر مطمئن رہے، اس کو یقین کہتے ہیں ۔
حضرت شاہ سیّد محمد ذوقیؒ کی نظر میں، جس میں شک وشبہ کو مطلق دخل نہ ہو اس کو یقین کہتے ہیں۔
حضرت با یزیدؒ فرماتے ہیں ’’یقین ہی کا نام توحید ہے‘‘۔
یقین کے تین درجات ہیں:
1 علم الیقین
2 عین الیقین
3 حق الیقین
ایک شخص آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے مگر آئینہ اُس سے پوشیدہ ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حا لت علم الیقین کہلاتی ہے۔ اگر دیکھنے والے کو یہ علم ہے کہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین کہلاتی ہے۔
اگر دیکھنے والا اپنی ‘ آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حا لت حق الیقین کہلاتی ہے۔
علم الیقین کی مثال معراج کے واقعہ سے سمجھائی جا سکتی ہے۔ جب کفارِ مکہ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو اُنہوں نے اس پر سخت تعجب کا اظہار کیا اور اسے نا ممکن قرار دیتے ہوئے جھٹلایا اور مذاق اڑایا مگر جب حضرت ابو بکر صدیق ؓکو پتا چلا تو آپؓ نے ایک ایسی بات کی جو ایک طرف آپؓ کے ایمان اور یقین کی گہرائی پر دلالت کرتی تھی اور دوسری طرف کفار کے اعتراض کا مدلّل جواب تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا ’’اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات کہی ہے توپھر سچ کہا ہے۔ آخر تم لو گو ں کو اس پر تعجب کیوں ہے۔ خدا کی قسم! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے یہ خبر دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس صبح و شام کے کسی حصے میں آسمان سے زمین تک وحی آ جاتی ہے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تصدیق کرتا ہوں۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مراد یہ تھی کہ اگر میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آسمان سے وحی آنے پر یقین کر لیتا ہوں تو پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آسمان پر لے جائے جانے کے معاملے میں یقین نہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ جو قادرِ مطلق اپنے بندے پر آسمان سے وحی نازل کر سکتا ہے وہ اُسے آسمان پر کیوں نہیں لے جا سکتا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے معراج النبی ؐ کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی اور اس پر مکمل یقین کیا۔ یہ علم الیقین کا کامل ترین درجہ ہے یعنی آنکھ سے دیکھے اور خود تجربہ کئے بغیر صرف سن کر، بتانے والے کی صداقت اور ایمانداری پر بھروسے کی بنا پر اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنا۔
عین الیقین کا ذکر قرآن کریم میں حضرت ابراہیم ؑ کے ضمن میں یوں کیا گیا ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور اسی طرح ہم نے دکھادی ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی پوری بادشاہی تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘ (الانعام۔ 75 )
بعض کا خیا ل ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے سے ہر پردہ اُٹھ گیا اور عرش سے تحت الثریٰ تک ہر چیز انہیں نظر آنے لگی تھی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ آسمان اور زمین کی تمام اشیا کی حقیقت پر آگاہی بخش دی گئی تھی تاکہ کائنات کی ان تمام چیزوں سے مطلع ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، علم، قدرت اور حکمت کے بارے میں عین الیقین کے مرتبہ عالی پر فائز ہو جائیں۔
قرآنِ پاک میں ہے جب حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسمعیل ؑ کو فرمایا! ’’اے ا سماعیل ؑ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔‘‘ حضرت اسماعیل ؑ نے عرض کی ’’جو آپؑ کو حکم ہوا ہے آپؑ اُس کی تعمیل کریں۔‘‘ اُن کی عمر اُس وقت تیرہ (13) برس تھی لیکن اپنے والد پر اس قدر یقین کہ خود کو ذبح کرانے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ علم الیقین کی بے حد اعلیٰ قسم ہے۔ یہ اُن کے یقین کا امتحان تھا جس میں کامیابی کے ثبوت کے طور پر اُن کے ذبح کے وقت جنت سے دُنبہ آگیا تھا۔
جب نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں پھینکا تو انہوں نے حضرت جبرائیل ؑ کی مدد لینے سے انکار کر دیا اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین کیا کہ وہ میرے حال سے واقف ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے بے شک اللہ پاک نے ہی آگ میں جلانے کی صلاحیت رکھی ہے جب تک اللہ کا حکم اور رضا نہیں ہو گی تب تک آگ مجھے نہیں جلا سکتی۔ وہ اگر چاہے گا تو مجھے آگ سے نجات دے گا۔ پس اللہ نے ان کے یقین کو پورا کیا۔ کیا ہم بھی اس طرح سے سوچتے ہیں؟ کیا ہمیں یقین ہے کہ واقعی ہمارا اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے؟
قرآن کے آغاز میں ہی اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ اس میں ہدایت انہی لوگوں کے لیے ہے جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور وہی لوگ متقی ہیں۔

ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرہ۔2-3)
ترجمہ: (یہ) ہدایت ہے متقین کے لیے جو غیب پر ایمان لائے۔

اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم ِ غیب عطا فرمایا ہے۔ جو غیب پر یقین نہیں رکھتا وہ قرآنِ پاک کی تعلیمات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ ہدایت پر وہی ہے جو غیب پر یقین رکھتا ہے ۔
اسی طرح قرآن میں ہے کہ

اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ( سورۃ النور۔35)
ترجمہ:اللہ ہی زمین و آسمان کا نور ہے۔

اللہ تعالیٰ کا نور ہر طرف پھیلا ہوا ہے ، جو اس نور پر جتنا یقین کرے گا اتنا ہی وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گا۔ کافر اور منکرین اللہ کے نور پر یقین نہیں رکھتے اس لیے وہ اس نور سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں ’’اگر تیرا یقین اعلیٰ ہو گا تو تُو اس دُنیا اور آخرت دونو ں میں کامیاب ہو گا۔ یہ عارضی جسم جو اس دنیا کے لیے ہے اس کو مجاہدات کے ذریعے فنا کر دے۔ پس پھر ایک وقت آجائے گا کہ یہ عارضی جسم تجھ سے لے لیا جائے گا اور تو اُس خزانے سے محروم ہو جائے گا جو اس میں مدفون ہے اور تو افسوس کرے گا کہ میں خزانہ سے محروم ہو گیا اور میں نے آبِ حیات کومٹی میں چھپا دیا کیونکہ جو یقین نہیں کرتا وہ اپنی ذہانت اور عقل مندی کے بھروسہ پر علم ِ نبوت سے محروم رہ جاتا ہے۔ پھر وہ افسوس کرے گا کہ میں گھر کے نقش و نگار میں کھو گیا اور خزانہ سے محروم ہو گیا۔ ‘‘
ہم وہ لوگ ہیں جن کو طرح طرح کی آسائشات میسر ہونے کے باوجود بھی ہمارے دل اداس، چہرے ملول، ہماری ارواح بے چین اور طبیعت افسردہ رہتی ہے۔ حقیقی خوشی سے ہم کبھی ہمکنار نہیں ہوتے۔ کس لیے؟ کیوں نہیں ہوتے ؟ آخر کیا وجہ ہے؟
اس لیے کہ ہمیں اس بات پر یقین ہی نہیں کہ اس کائنات کو چلانے والا اللہ ہے۔ جب ہم اس بات پر یقین ہی نہیں کریں گے کہ ہمارا اصل مالک اللہ ہے، یہ زندگی اس کی امانت ہے اور اُس نے اس زندگی کو گزارنے کے کچھ اصول بتائے ہیں اور وہی اصول بہترین ہیں تو ہم اپنی دنیا کی زندگی کبھی بھی صحیح طریقے سے نہیں گزار سکتے۔ بامقصد زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اللہ، اس کے احکامات اور ان احکامات کو ہم تک پہنچانے والے اُس کے انبیا اور اولیا پر یقین کرنا ہو گا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں آئے اور ہمیں اللہ کا پیغام دے کر چلے گئے۔ ان کو اللہ پاک نے بطور بشر بھیجا تاکہ وہ ہمارے اندر شک و شبہات دور کر کے ایک اللہ کی محبت کے یقین کو زندہ کر سکیں۔ جب یہ سلسلہ ختم ہو گیا تو اب وہ ہمارے اندر اس یقین کو پیدا کرنے کے لیے ولی ٔ کامل یعنی ’انسانِ کامل‘ بھیجتا ہے جو ہمیں اللہ کی وحدانیت کا یقین دلاتا ہے۔ جب تک ہمیں یقین دلانے والے پرہی یقین نہیں ہو گا تو ہم اُس ایک اللہ کی وحدانیت پر کیسے یقین کریں گے۔ بغیر یقین کے ہم کبھی بھی اللہ کی پہچان کا سفر طے نہیں کر سکتے اور بغیر اللہ کو پہچانے اگر ہم اس دنیا سے چلے گئے تو ہم اپنی آخرت کو تباہ و برباد کر دیں گے۔ اللہ کو پہچاننے کے لیے ہمیں زندہ مرشد کامل اکمل ڈھونڈنا پڑے گا، جب تک مرشدکامل اکمل نہیں مل جاتا اور اس پر یقین کر کے اس کی مکمل پیروی نہیں کرتے تب تک ہم اپنے مقصد ِ حیات کو سمجھ نہیں سکتے، پانا تو بہت دور کی بات ہے۔
علامہ اقبال ؒ اس بات کے قائل تھے کہ انسانِ کامل کی صحبت اور اُس پر یقین سے ہی اس خاکی وجود میں موجود روح کو قوتِ پرواز ملتی ہے اور وہ غلامی کی تمام زنجیریں توڑ کر اللہ تک سفر طے کرتی ہے۔

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
( بانگ درا)

علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اگرتیرے خاکی تن یعنی جسم میں یقین پیدا ہو جائے تو بغیر پروں کے جبرائیل ؑکی طرح ہو جائے گا اور جب یہ یقین حق الیقین میں بدل جائے گا تو تجھے نہ تلوار اور نہ تدبیر کی ضرورت رہے گی بلکہ حق الیقین سے ہی تیرے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ دور ہو جائے گی۔ تواتنا نڈر ہو جائے گا کہ موت کیا چیز ہے تیرے حق الیقین سے تو موت کی بھی موت واقع ہو جائے گی۔
درست عقیدہ وہی ہے جو اولیا اللہ کا ہے، اولیا اللہ کا عقیدہ ہی صراطِ مستقیم ہے اس لیے اولیا اللہ پر یقین کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ صحابہ کرام ؓ جو حضورعلیہ الصلوٰۃو السلام کی بصیرت سے فیضیاب تھے‘ ان کے بارے میں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کرامؓ دریائے معرفت کے لیے حضرت نوح ؑ کی کشتی کی طرح ہیں۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے نے اپنے والد کی بات پر یقین نہ کیا اور کشتی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور کہاکہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا تو قرآن میں جواب دیا گیا ’’ لاعاصم الیوم‘ ‘ آج کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ اپنے والد کی بات پر یقین نہ کرنے کی وجہ سے وہ نہ بچ سکا۔ فرعون نے خود حضرت موسیٰ ؑ کو پال کر جوان کیا اور جب حضرت موسیٰ ؑ نے اُس کو حقیقت بتائی کہ ہم سب پر ایک اور طاقت ہے جو حکومت کرتی ہے اور وہ اللہ ہے تو فرعون نے ان پر یقین نہ کیا نہ ہی حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ کی طرف سے دئیے گئے معجزوں پر یقین کیا۔ اسی وجہ سے فرعون دریائے نیل میں ڈوب گیا ۔
پس دنیا و آخرت میں بربادی کی واحد وجہ اللہ کا پیغام لانے والوں پر یقین نہ کرنا ہے۔ اگر کوئی اللہ کی پہچان و معرفت کا سچا اور خالص طلبگار ہے تو اس پر لازم ہے کہ مرشد کامل اکمل کو تلاش کر کے اس کی پیروی کرے اور اس کے ہر حکم، ہر بات، ہر عمل پر یقین کرے۔ حدیث پاک ہے:

فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُوْا عَنِ الْحِکْمَۃ
ترجمہ: حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

پس مرشد کامل کے ہر حکم میں حکمت ہے۔ اس پر دل و جان سے یقین کر کے عمل کرنے والا راہِ فقر میں کامیاب ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:

اصل یقین است یقین گر شود
کارِ تو از ہفت فلک بہ گزرد

ترجمہ: تیرا اصلی سرمایہ یقین ہے۔ اگر تجھے یہ حاصل ہو جائے تو تو ساتوں آسمانوں سے بھی آگے نکل جائے ۔ (کلید التوحید کلاں)

اصل یقین است یقین یار کن
محرمِ اسرار شوی از کنہہ کن

ترجمہ: اصل چیز یقین ہے۔ یقین سے دوستی کر لے تا کہ اسرارِ کنہہ کن کا محرم ہو جائے۔

مادیت پرستی اور فتنہ پروری کے اس دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلوب کا تزکیہ فرما رہے ہیں اور طالبانِ دنیا کو طالبانِ مولیٰ بنا کر نورِ فقر سے مستفید فرما رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی شان یہ ہے کہ آپ مشاہدہ کے ذریعے طالبانِ مولیٰ کو علم الیقین سے حق الیقین کے مرتبے تک پہنچاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اسم ِ اللہ ذات کا تصور، ذکر ِ یاھُو اور مشق مرقومِ وجودیہ بھی عطا کرتے ہیں جس کی بدولت طالب ِ صادق اللہ پاک کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور اس کا نہ صرف اللہ کی ذات کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے بلکہ مرشد کامل پر یقین بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ طالبانِ صادق کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ بھی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی عظیم المرتبت اور بلند پایہ ہستی سے مستفید ہوں اور یقین کی دولت سے سرفراز ہوں۔


یقین | Yaqeen” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں