عید الفطر |Eid ul Fitr


5/5 - (1 vote)

عید الفطر

تحریر؛ محمد یوسف اکبر سروری قادری۔ لاہور

عید کا معنی ومفہوم

عید کا لفظ عود سے مشتق ہے جس کا معنی لوٹنا یا پلٹنا ہے۔ یوں عید کے معنی ہیں بار بار آنے والی خوشی، فرحت اور مسرت۔ چونکہ یہ دن تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بار بار لوٹ اور پلٹ کر آتا ہے اورہر بار خوشیوں اور مسرت کے مسحور کن روحانی لمحات لیکر آتا ہے اور بے پناہ روح پرور خوشیاں عطا کرتا ہے اسی نسبت سے اس دن کوعید کہا جاتا ہے۔
حضرت امام راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ عید کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
 عید لغت کے اعتبار سے اُس دن کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے اور اصطلاحِ شریعت میں یہ دن یومِ عید کہلاتا ہے جس سے مراد خوشی اور مسرت کا دن ہے اور یہ دن شریعت ِ محمدیؐ میں خوشیاں منانے کے لیے مقرر کیا گیا ہے جو شرعی اصولوں پر مبنی ہوں۔ (المفردات )
روح کی لطافت، قلب کے تزکیہ، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ ساتھ انتہائی عجز و انکسار، خشوع و خضوع اور حضوریٔ قلب کے ساتھ تمام مسلمانوں کا اسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سر شار ہو کراللہ ربّ العالمین کی بار گاہِ عالی شان میں سجدۂ بندگی اور سجدۂ شکر بجا لانے کانام عید ہے۔

قرآن مجید سے عید کا ثبوت

قرآنِ مجید کی سورۃ المائدہ میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن ِ مریم ؑ کی ایک دعا کے حوالے سے ذکر ِ عید موجود ہے۔ ارشادِ ربّ العالمین ہے:
ترجمہ: عیسیٰ ؑ ابن ِ مریم ؑ نے عرض کی ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان نازل کر دے۔ (اور اس طرح اس خوان کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے بطور عید یاد گار قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔ (سورۃ المائدہ۔ 114)

اس سے اگلی آیت مبارکہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اللہ ربّ العزت نے فرمایا کہ میں یہ خوان تم پر اتار تو دیتا ہوں مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفرکرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہا نوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو گا۔ (سورہ المائدہ۔ 115)

فطر کا معنی و مفہوم 

فطر افطار سے مشتق ہے جس کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں یعنی روزہ کھولنا یا ختم کرنا۔ چونکہ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ‘روزہ اور عباداتِ رمضان کااجر و ثواب اور انعام عطا فرماتا ہے پس اسی لیے اس اسلامی تہوار کوعید الفطر کہا گیا ہے۔

عید الفطر کی رات کی فضیلت

ماہِ رمضان کے اختتام پر آنے والی یہ رات شوال المکرم کی پہلی رات ہوتی ہے۔ یہ رات خصوصی برکتوں اور سعادتوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ اگر ہم اس مبارک اور بابرکت رات کو اللہ کے ذکر (اسم اللہ ذات) میں گزاریں تو یہ ہماری خوشیوں اور خوش قسمتی میں اضافہ کا باعث ہو گی۔ خاص کر اہل ِ طریقت اور طالبانِ مولیٰ ذکر ِ یاھُو اور تصور اسم اللہ ذات میں گزاریں اور اس کے فیوض وبرکات حاصل کریں کیونکہ یہ وہ رات ہے جس میں ماہِ صیام میں روزے رکھنے والوں اور عبادت کرنے والوں کو اس کا اجر و ثواب و انعام عطا کیا جاتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں اس رات کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میری اُمت کو رمضان المبارک میں پانچ خصوصیات عطا کی گئیں جو اس سے پہلے کسی اور اُمت کو عطا نہیں کی گئیں۔ ان میں سے پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ آخری رات میں روزہ داروں کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی ٔ رسولؐ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ! کیا وہ رات لیلۃ القدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہوتا ہے تو اسے پورا اجر دے دیا جاتا ہے۔ وہ رات رمضان المبارک کی آخری اور شوال المکرم کی پہلی رات ہے۔‘‘ اس سے مراد عید الفطر کی رات ہے جس رات عید الفطر کا چاند نظر آتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس رات کو ذکر ِ یاھُو میں گزاریں اور دنیاوی مصروفیات کی نذر نہ کریں۔

یومِ عید ایک اہم مذہبی تہوار

عید الفطر تمام دنیا کے مسلمانوں کا اہم مذہبی تہوار ہے جسے مسلمان رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال المکرم کا چاند نظر آجانے پر مذہبی جذبے اور نہایت عقیدت و احترام اور جوش خروش سے مناتے ہیں۔ شوال المکرم اسلامی تقویم کا دسواں مہینہ ہے۔ عید کے روز مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاگیا ہے۔ عید الفطر کے روز نمازِ عید دو رکعت زائد چھ تکبیروں کے ساتھ جامع مسجد یا کھلے میدان یعنی عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے۔

یومِ عید کی سنتیں اور آداب

 عید کے روز نمازِ عید کے لیے جانے سے قبل غسل کرنا۔
 نمازِ عید کی ادائیگی سے قبل کچھ میٹھا یا کھجوریں کھا کر جانا۔
 عید کے روز تکبیرات کہنا اور نمازِ عید کے لیے جاتے ہوئے اور واپس آتے ہوئے راستے میں تکبیریں (اَللّٰہُ اَکْبَر، اَللّٰہُ اَکْبَرْ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَر، وَلِلّٰہِ الْحَمْد) پڑھنا۔ عید الفطر پر آہستہ آواز میں جبکہ عید الاضحی پر بلند آواز میں پڑھنا۔
 اپنے مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارکباد دینا، بغل گیر ہونا اور مصافحہ کرنا۔
 عید کے لیے خوبصورت اور دیدہ زیب لباس پہننا اور خوشبو لگانا۔
 نمازِ عید کے لیے آنے اور جانے کے لیے مختلف راستے اختیار کرنا۔

وقت نمازِ عید

عید کی نماز ادا کرنے کے لیے وقت سورج کا ایک نیزہ کے برابر بلند ہونے سے شروع ہو کر ضحوہ کبریٰ تک ہے۔
ضحوہ کبریٰ کا آغاز‘صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک کے کل وقت کا نصف ( عام طور پر دوپہر 12 بجے کے بعد دس سے پندرہ منٹ کا وقت ضحوہ کبریٰ شمار ہوتا ہے۔ جب ہر شے کا سایہ گھٹنا یا بڑھنا رُک جاتا ہے۔ اسے وقت ِ زوال بھی کہا جاتا ہے۔) پورا ہونے پر ہوتا ہے۔ہر نماز ادا کرنے سے پہلے اذان دینا اور اقامت کہنا لازم ہے مگرنمازِ عید کو اذان و اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے اور صرف دو رکعت نماز عید الفطر پڑھی جاتی ہے۔

طریقہ ادائیگی نماز عید الفطر

دو رکعت نماز عید الفطر زائد چھ تکبیروں کے ساتھ۔
پہلی رکعت میں ثنا کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھنے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر تین زائد تکبیریں مسنون کہی جاتی ہیں اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر امام کوئی دوسری سورۃ ساتھ ملاتے ہیں اور رکوع کرتے ہیں اور رکعت مکمل کرتے ہیں ۔
دوسری رکعت میں قرأتِ سورۃ فاتحہ اور دوسری سورۃ ساتھ ملا کر پڑھنے کے بعد رکوع میں جانے سے قبل ہاتھ اٹھا کر تین زائد تکبیریں مسنون ہیں اور چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں چلے جاتے ہیں اور نماز مکمل کرتے ہیں۔ سلام پھیرنے کے بعد امام خطبہ عید پڑھتے ہیں جس میں مذہبی ذمہ داریوں، اخوت و محبت، رواداری اور بھائی چارہ کا درس دیا جاتا ہے۔ خطبہ کے بعد دعاؤں میں عالم ِاسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی، خطاؤں کی معافی اور اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد، فتح و نصرت اور رحمت و بخشش طلب کی جاتی ہے۔

عید الفطر کی رسومات

عید الفطر اللہ جل شانہٗ کی رحمتوں، برکتوں، مغفرتوں اور رمضان میں رکھے گئے روزوں اور عبادات کے انعام و اکرام اور اجرو ثواب کے حصول کا دن ہے یعنی یومِ تقسیم انعاماتِ خاص ہے۔ اس روز احکامِ شرعی و احکامِ خداوندی کی خلاف ورزی کرنا، کفار کے طریقے اختیار کرنا اور نازیبا حرکات کرنا وغیرہ مکروہ اعمال ہیں جن سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہم سب پر لازم ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے جو مرشد کامل اکمل کے دامن سے وابستہ ہو کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر تقویٰ اور معرفت حاصل نہ ہو تو ہر عبادت بے روح شمار ہو گی۔ اس لیے ان خوشی کے لمحات کو جامِ معرفت اور تزکیۂ نفس کے نبویؐ طریق اختیار کر کے مسحور کن بنایا جا سکتا ہے۔

صدقہ فطر

صدقہ فطر کی ادائیگی نمازِ عید سے پہلے کرنا واجب ہے ورنہ عام صدقہ شمار ہوگا۔
صدقہ فطر ہر صاحب ِنصاب آزادمسلمان عاقل و بالغ مرد اور عورت پر واجب ہے۔
صدقہ فطر پیشگی رمضان المبارک میں ادا کرنا بھی سنت ِصحابہؓ سے ثابت ہے اور اس کا ثواب ستر گنا زیادہ ہے۔
صدقہ فطرادا کرنے کا حتمی وقت آخری روزہ کی افطاری کے بعد شروع ہوتا ہے اور نمازِ عید پڑھنے سے پہلے تک ہر صورت ادا کرنا واجب ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے کہ گیہوں (گندم) یا اس کا آٹا آدھا صاع (تقریباً 2 کلو 47 گرام) دیں۔ کھجور، جَو، کشمش کا ایک صاع (4 کلو 94 گرام) دیں۔ اگر ان چاروں کے علاوہ کوئی دوسری چیز مثلاً چاول، باجرہ یا کوئی اور غلہ دینا چاہیں تو قیمت کا لحاظ کرنا ہو گا۔ (انورِ شریعت از مفتی جلال الدین احمد امجدی)
صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں یعنی جو زکوٰۃ کے مستحق ہوں ان کوصدقہ فطر دیا جا سکتا ہے۔


اپنا تبصرہ بھیجیں