Haqeeqat-e-Insan

حقیقتِ انسانِ کامل–Haqeeqat-e-Insan-e-Kamil

Spread the love

Rate this post

تحریر: مسز عنبرین مغیث سروری قادری۔ ایم اے ابلاغیات

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْض
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
یعنی عالم میں جو کچھ بظاہر دکھائی دیتا ہے وہ ذاتِ حق تعالیٰ کے ظہور کے سوا کچھ نہیں اور ہر شے کا باطن بھی ذاتِ حق تعالیٰ کے اسما و صفات کے انوار کے سوا کچھ نہیں۔ اسما و صفات کے انوار سے مراد ہر مخلوق کی اندرونی قوتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ حیات‘ سمع‘ بصر‘ علم وغیرہ کی صفات رکھتی ہے۔ واضح ہو کہ کائنات کی کوئی شے بھی ’’بے جان‘‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔ ہر شے کا وجود ذاتِ حق تعالیٰ کا ظہور ہے اور اللہ تعالیٰ حییّ و قیوم ہے۔ جانوروں اور پودوں کو تو ہم زندہ مانتے ہی ہیں لیکن سائنسی نقطہ نگاہ سے جن جمادات کو ’’بے جان‘‘ قرار دیا جاتا ہے ان کے مادے کو بھی خوردبین سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ جن ایٹموں سے مل کر بنے ہیں وہ ایٹم مسلسل حرکت کر رہے ہیں۔ ان کے نیوکلیئس کے گرد الیکٹران مسلسل اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ بعض عناصر (Elements) کے ایٹم بے پناہ قوت کے حامل ہیں جن سے ایٹم بم تیار ہوتے ہیں۔ تمام عناصر قوت کو خارج بھی کرتے ہیں اور جذب بھی کرتے ہیں۔ آپس میں جوڑے (Bonds) بھی بناتے ہیں‘ پرانے ایٹم مرتے بھی ہیں اور نئے پیدا بھی ہوتے ہیں (اسی وجہ سے اشیاء گلتی، سڑتی، گِھستی اور پرانی ہوتی ہیں) ایک سے دوسرے کو حرارت اور بجلی منتقل بھی کرتے ہیں۔ ان سب افعال کے لیے انہیں ’’قوت‘‘ درکار ہے۔ دنیا کی کوئی بھی شے خود ’’قوت‘‘ کو پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ طبعیات (Physics) کا ایک قانون ہے کہ
’’قوت کو نہ تخلیق کیا جا سکتا ہے نہ تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اسے صرف ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘‘۔ یعنی ’قوت‘ کا ماخذ دنیا کی کوئی شے نہیں تو پھر اشیاء کو اپنے افعال کے لیے قوت کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ بے شک کائنات کی ہر شے کی قوت کا باعث اس شے کے اندر ہی موجود نورِ حق تعالیٰ ہے جو تمام قوتوں کا مالک، ان کا پیدا کرنے والا، ان کا منبع، مصدر اور سرچشمہ ہے جیسا کہ اللہ نے خود قرآن میں واضح فرما دیا اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (البقرہ۔165) ترجمہ:بے شک تمام قوتوں کا مالک اللہ ہے‘‘۔ اسی نور کی قوت کے باعث یہ حرکت کرتی، بڑھتی، پھلتی پھولتی ہیں۔ یہی نور سورج کی حرارت، چاند کی روشنی، پانی کی روانی، پھول کی خوشبو، تتلی کی اُڑان میں ہے۔ یہی نور ایک ’نطفے‘ کو ’انسان‘ بننے کی قوت دیتا ہے۔اسی نور کی موجودگی کی بنا پر ہم کائنات کی کسی بھی شے کو ’بے جان‘ نہیں کہہ سکتے۔ ذاتِ حق تعالیٰ کے اسما و صفات کے انوار ان اشیا کی تمام باطنی قوتوں کا باعث ہیں اور ان کو عطا کی جانے والی تمام صفات ذاتِ حق تعالیٰ کے اسما کی بدولت ہیں کہ اسی واحد ذات کا نزول اشیائے عالم کے ظہور کا باعث بنا۔ ہر جا وہی ذات جلوہ گر ہے خواہ ظاہر ہو یا باطن۔
لیکن ’’انسان‘‘ کے سوا باقی تمام مخلوقاتِ عالم میں ظہورِ ذات اور اسما و صفات کے انوار اور قوتیں کامل طور پر موجود ہونے کے باوجود مکمل طور پر جلوہ گر نہیں۔ ذات تو ہر جگہ موجود بھی ہے اور کامل و مکمل بھی ہے لیکن اس کے تمام اسما اور صفات ہر شے میں مکمل طور پر اجاگر نہیں بلکہ ہر شے کے اس دنیا میں مقصد اور ضرورت کے مطابق اس میں صفات و اسما کی قوتیں اور انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ جن صفات کی اس شے کو ضرورت نہیں‘ ان کے انوار ان میں ظاہر نہیں ہوتے۔ البتہ اس کے باطن میں موجود اور قائم رہتے ہیں۔ اسی بنا پر کائنات کی ہر شے روزِ قیامت بولے گی اور جو کچھ اس سے پوچھا جائے گا اس کے متعلق گواہی دے گی جیسا کہ فرمایا گیا ترجمہ:’’آج ہم اُن کے مونہوں پر چپ کی مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے‘‘ (سورۃیٰسین۔65)۔ گواہی دینے کے لیے حیات‘ سمع‘ بصر‘ علیم‘ خبیر کی صفات کا موجود ہونا لازمی ہے۔ ہر شے میں ذاتِ حق تعالیٰ مکمل صفات کے ساتھ موجود تو ہے لیکن دنیا میں ان تمام صفات کا اظہار اس شے کی دنیا میں ضرورت اور ’’قدر‘‘ (value) کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً ایک مچھلی کو جس قدر ’علم‘ کی ضرورت ہے اسی قدر صفتِ علیم کے انوار اس میں ظاہر ہوں گے‘ اسی طرح پتھروں میں سننے‘ دیکھنے‘ بولنے کی تمام قوتیں موجود ہیں تبھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک میں چند سنگریزوں نے صاف کلمہ پڑھا اور لوگوں نے سنا بھی‘ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح میں شامل ہوتے تھے۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام تمام مخلوقات کی زبان سمجھتے اور ان سے انہی کی زبان میں بات کرتے تھے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ فرماتا ہے ’’زمین اور آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں۔‘‘ یعنی تمام مخلوقات میں اللہ کی ذات تمام صفات سمیت موجود ہے کہ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ والْاَرْض لیکن ذات کی یہ قوتیں صرف اتنی ہی مقدار میں اور تب ہی ان سے ظاہر ہوئیں جتنا اور جب حکمِ الٰہی ہوا ورنہ عموماً یہ تمام قوتیں باطنی طور پر موجود ہوتے ہوئے بھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوتیں۔ اسی طرح دیگر تمام اشیا کے لیے ہے کہ باطنی طور پر تمام اسما و صفات کے انوار موجود ہوتے ہوئے بھی ظاہر صرف وہی ہوتے ہیں جن کی ضرورت اس شے کی اس دنیا میں حیات کے لیے لازمی ہے اور دیگر صفات چھپی رہتی ہیں۔
انسان دیگر مخلوقات سے اشرف اس لیے ہے کہ دنیا میں جس مخلوق میں سب سے زیادہ اسما و صفاتِ الٰہیہ کے انوار ظاہر ہوئے وہ انسان ہے اور جس کو ان صفات سے متصف ہونے کی سب سے زیادہ صلاحیت عطا کی گئی وہ بھی انسان ہی ہے۔ یعنی ذاتِ حق تعالیٰ جس قدر کامل طور پر ذاتِ انسان میں ظاہر ہو سکتی ہے کسی اور شے میں نہیں۔ جیسا کہ رسالہ الغوثیہ میں اللہ تعالیٰ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے فرماتا ہے ’’میں جیسا انسان میں ظاہر ہوا کسی اور میں ظاہر نہیں ہوا۔‘‘ لیکن ان صفات سے متصف ہونے اور ذاتِ انسان میں ذاتِ حق تعالیٰ کے مکمل طور پر ظاہر ہونے کے لیے انسان کو بشری صفات یعنی شر کی صفات کو مکمل طور پر مغلوب کر کے ذاتِ حق تعالیٰ کا انتہائی قرب حاصل کرنا ہوگا۔ اللہ کی ذات اوراسما کے انوار کی موجودگی کی وجہ سے ہی انسانوں میں حیات‘ سمع‘ بصر‘ علم‘ رحمت‘ مغفرت‘ رزاقیت وغیرہ کی صفات دیگر مخلوقات سے زیادہ ظاہر ہیں۔ قربِ الٰہی کے حصول کے ساتھ ساتھ نہ صرف ان صفات کے انوار زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں بلکہ دیگر اسما و صفات بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ تمام انسانوں میں اللہ کی ذات اور تمام صفات کی استعداد کی موجودگی کے باوجود یہ تمام انسانوں میں بھی مکمل ظاہر نہیں ہوتی بلکہ ان کے مقامِ قربِ الٰہی کے مطابق ہی ظاہر ہوتی ہے اور جس انسان میں ذاتِ حق تعالیٰ مکمل و کامل ترین صفات کے ساتھ ظاہر ہے وہ ازل سے ابد تک صرف ایک ہی ذات ہے یعنی انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو ہر زمانے میں لباس بدل کر اس زمانے کے انسانِ کامل کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’’انسانِ کامل‘‘ میں فرماتے ہیں:’’ انسانِ کامل وہ قطب ہے جس پر اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور وہ جب وجود کی ابتدا ہوئی اس وقت سے لے کر ابدالآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگارنگ لباس ہیں اور باعتبار لباس اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمد ؐہے اس کی کنیت ابو القاسم اور وصف عبداللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے۔ پھر باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانے میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانے کے لباس کے لائق ہوتا ہے۔‘‘
چنانچہ انسانِ کامل کی ذات ازل سے ابد تک وہی ذات ہے جس سے ’’وجود‘‘ کی ابتدا ہوئی‘ جس میں ذات حق تعالیٰ ظاہر ہوئی، جو مراۃِ الٰہی اور ذات کا اظہار ہے‘ جس کے سوا ذاتِ حق تعالیٰ کہیں بھی مکمل جلوہ گر نہیں ہے۔ انسانِ کامل اگر ایک طرف ذاتِ حق تعالیٰ کا مکمل اور واحد اظہار ہے تو دوسری طرف اس میں انسانوں کے تمام جسمانی اوصاف بھی موجود ہیں۔ وہ انسانوں میں انسانوں کی طرح بھی رہتا ہے اور حضرتِ باری کی کامل جلوہ گاہ بھی ہے۔ اس کا ایک رخ اگر بشریت اور عبودیت ہے تو دوسرا رخ ربوبیت ہے۔ اس لحاظ سے انسانِ کامل کو ’’برزخ‘‘ کے اسم سے موسوم کیا گیا ہے۔برزخ کے لفظی معنی حاجز اور فاصل کے ہیں۔ دو حالتوں اور دو چیزوں کے درمیان جو چیز فاصل ہو اسے برزخ کہتے ہیں۔ اسی لیے موت کے بعد قیامت اور حشر تک کے زمانے کو عالمِ برزخ کہا جاتا ہے جو حیاتِ دنیوی اور حیاتِ اخروی کے درمیان حدِ فاصل ہے۔ برزخ سے مراد وہ شے ہے جو دو چیزوں کے درمیان موجود ہو، جس کا ایک رخ ایک طرف ہو تو دوسرا رخ دوسری طرف‘ اور جس کا تعلق دونوں طرف کی حالتوں سے ایک جیسا برابر ہو۔ اگر ایک طرف سے دیکھیں تو لگے کہ اس کا رُخ ادھر ہی ہے اور دوسری طرف سے دیکھیں تو لگے کہ نہیں اس کا رخ تو ادھر ہے۔ یعنی وہ دونوں اطراف میں کامل و مکمل طور پر ظاہر ہو۔ اس لحاظ سے انسانِ کامل برزخ ہوا جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں کہ:
’’اگر آنہارا خدا خوانی بجاو اگر بندۂ خدا دانی روا‘‘
ترجمہ: اگر تو انہیں خدا کہے تو بجااور اگر بندۂ خدا جانے تو روا۔
پس انسانِ کامل نہ صرف ربوبیت اور عبودیت کا جامع ہے بلکہ ان دونوں یعنی خالق و مخلوق کے درمیان حدِ فاصل بھی ہے‘ واسطہ بھی ہے‘ رابطہ بھی ہے اور حجاب بھی ہے کہ برزخ کے ایک معنی پردے اور حجاب کے بھی ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
وَھُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا (الفرقان۔ 53)
ترجمہ: اور وہی (اللہ) ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (دوسرا) کھاری نہایت تلخ ہے اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط حجاب بنا دیا ہے۔
اس آیت کریمہ میں دو دریاؤں سے مراد دنیا اور آخرت لیا جاسکتا ہے۔ جس کی دنیا تلخ اس کی آخرت میٹھی اور جس کی دنیا میٹھی اس کی آخرت تلخ اور ان دونوں کے درمیان حجاب انسان کا اپنا وجود ہے۔ جیسے ہی انسان اپنے بشری وجود کے حجاب سے مر کر یا روحانی حیات پا کر آزاد ہو جاتا ہے دنیا اور آخرت کی سب حقیقتیں اس کے سامنے کھل جاتی ہیں۔ پس اس آیت کریمہ کے مطابق برزخ کے معنی پردے یا حجاب کے ہوئے۔
انسانِ کامل کی بشریت بھی دیگر تمام انسانوں کے لیے حجاب ہے کہ اس کا باطن تمام تر ذاتِ حق تعالیٰ ہے‘ اس کا ظاہر تمام تر مظہرِ الٰہی ہے لیکن اس کا دیگر انسانوں جیسا جسمانی وجود ان لوگوں کے لیے حقیقت سے ایک مضبوط حجاب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا کہ قُلْ اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ ترجمہ’’ کہہ دیجیے کہ’’ میں بھی تمہاری مثل ایک بشر ہی ہوں‘‘ ۔جبکہ دوسری طرف فرمایا :
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال۔ 17)
ترجمہ: (اے محبوب ) جب آپ نے (ان کافروں پر) پتھر مارے تھے تو (وہ) آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے مارے تھے۔
اور فرمایا کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ (الفتح۔ 10)
ترجمہ: (اے حبیب ؐ) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ (درحقیقت) اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔
ان آیات میں ایک طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جہتِ بشریت کی بات کی جارہی ہے دوسری طرف جہتِ ربوبیت کی بات ہورہی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات دونوں لحاظ سے مکمل اور جامع ہے اور اس لیے بھی برزخ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بشریت ان لوگوں کے لیے حجاب ہے جن کی نظر آپ کی حقیقت پر نہیں، جن کے متعلق اللہ نے فرمایا:
* وَتَرَاھُمْ ےَنْظُرُوْنَ اِلْیکَ وَھُمْ لَا ےُبْصِرُوْنَ (الاعراف۔198)
ترجمہ: اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو دیکھے کہ تیری (بشریت کی) طرف تکتے ہیں اور (تیری حقیقت میں سے) کچھ نہیں دیکھتے۔
سورہ رحمن میں اللہ فرماتا ہے:
* مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۔ (الرحمن: 19-20)
ترجمہ:’’اسی نے دو سمندر رواں کیے جو باہم مل جاتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک آڑ (برزخ) ہے، (وہ اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں دو سمندروں سے مراد انسان کا ظاہر اور باطن ہے جو باہم ملے ہوئے ہیں کہ ایک ہی انسانی وجود میں اس کا ظاہر بھی موجود ہے اور باطن بھی پنہاں ہے لیکن باہم ملے ہونے کے باوجود انسان کا ظاہر علیحدہ ہے اور باطن علیحدہ البتہ انسانِ کامل کا ظاہر ہی اس کا باطن اور اس کا باطن ہی اس کا ظاہر ہے کہ یہاں کوئی دوئی نہیں بلکہ یکجائی ہے۔ اس لحاظ سے وہ برزخ ہے کہ صرف اسی کا وجود ہے جہاں ظاہر و باطن علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی ہیں جبکہ باقی تمام مخلوق میں ظاہر کے وجود کا سمندر اور ہے اور باطن کے وجود کا سمندر اور‘ اور انسانِ کامل وہ مقام ہے جہاں یہ سمندر یکجا ہیں۔ اس کے سوا نہ کسی مخلوق میں ربوبیت کے آثار پیدا ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ربّ تعالیٰ میں عبودیت کے آثار پیدا ہوسکتے ہیں۔ ربّ ربّ ہی ہے اور مخلوق مخلوق ہی ہے۔ اسی لیے مندرجہ بالا آیت میں فرمایا ’’وہ اپنی اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے۔‘‘ صرف انسانِ کامل ہی ربوبیت و عبودیت کا جامع ہے اسی لیے برزخ اور خالق و خلق کے درمیان فاصل ہے۔ نہ وہ صرف ’’عبد‘‘ ہے اور نہ صرف ’’ھُو‘‘ بلکہ وہ دونوں کا جامع ’’عبدہٗ‘‘ ہے جس کے متعلق اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
عبدہٗ از فہمِ تو بالاتر است
زاں کہ اوہم آدم و ہم جوہر است
ترجمہ: عبدہٗ تیری عقل و فہم سے بالاتر ہے کیونکہ وہ بشر بھی ہے اور جوہر (نور) بھی۔
انسانِ کامل پردہ ہے ظاہر اور باطن‘ خالق اور خلق کے درمیان اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’اس کی وجہ سے ظہور (ظاہر کی جمع) بطون (باطن کی جمع) سے متمیزہوا ۔‘‘ انسانِ کامل تمام عالم کا آئینہ ہے اس لیے اس کا ظاہر ہر ظاہر کے لیے آئینہ ہے اور اس کا باطن تمام بطون کا آئینہ ہے۔ وہ حق اور خلق کے درمیان پردہ کی طرح ہے لیکن یہ پردہ اپنی لطافت اور شفافیت کے باعث دونوں کے لیے آئینے کی طرح ہے۔ ایک طرف سے وہ ذاتِ حق تعالیٰ کا آئینہ ہے تو دوسری طرف تمام مخلوق کی اصل صورتیں بھی اس میں واضح نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اس مرآۃِ کامل کے سوا کسی میں خود کو دیکھنا پسند نہیں فرماتا لیکن مخلوق اس آئینہ کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنا پر اس میں نظر آنے والی اپنی ہی صورتوں کو پہچان بھی نہیں پاتی۔ حدیثِ مبارکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’میں ذات کا شفاف آئینہ ہوں۔ حقائق کی صورتیں‘ مظاہرِ صفاتِ جلالیہ و جمالیہ مجھ میں روشن ہیں۔ ہر مظہر مجھ میں وہی دیکھتا ہے جو اس میں ظاہر ہے پس ابوبکرؓ مجھ میں وہی دیکھتاہے جو اس میں ظاہر ہے (یعنی حسن و جمال، لطف اور کمال) اسی لیے ابوبکر ؓ نے کہا کہ وما رایت احسن صور صورۃ منک ترجمہ:’’میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عمدہ صورت میں کسی کو نہیں دیکھا ‘‘اور ابوجہل لعین کو مجھ میں وہی کچھ دکھلائی دیتا ہے جو اس میں ظاہر ہے (یعنی قہر اور انکار اور ضلال) پس اپنے حق میں کہتا ہے:
فارایت اقبح صورۃ منہ
ترجمہ: ’’میں نے اُس سے زیادہ قبیح صورت نہیں دیکھی‘‘۔
پس ابوبکرؓ نے مجھ میں اپنے آپ کو دیکھا اور اپنے حسن و جمال کا وصف بیان کیا اور ابوجہل نے مجھ میں اپنے آپ کو دیکھا تو اسے اس کی اپنی زشتی اور روسیاہی دکھائی دی۔ مگر میں نہ یہ ہوں اور نہ وہ اور نیز ہر شان میں تمام کے ساتھ ہوں۔‘‘
جیسا کہ آئینہ خود تو بے رنگ ہے نہ اس میں نظر آنے والا سرخ رنگ اسے سرخ بنا سکتا ہے نہ سیاہ رنگ اسے سیاہ کر سکتا ہے۔ پس خود تو نہ وہ سرخ ہے نہ سیاہ لیکن سب کو ان کے اصل رنگ سے آشنا کر دیتا ہے۔ نہ ان میں سے ہے نہ ان سے جدا۔ پس انسانِ کامل مظہر عجائب الغرائب ہے اور اس کا وجود طلسمات کا گنج معمہ ہے۔
ذاتِ حق تعالیٰ کا کامل و مکمل نزول اور وجودِ انسان کی تکمیل انسانِ کامل کے بشری صورت میں دنیا میں ظاہر ہو جانے پر مکمل ہو جاتی ہے۔ یہ وہ عبد ہے جس میں عبد اور ھو کی تمام صفات مکمل جلوہ گر ہو چکی ہیں پس یہ عبدہٗ ہے۔ نور‘ روح‘ قلب اور نفس ہو یا قلم‘ لوح‘ عرش اور کرسی ہو تمام مراتب اور مقامات انسان کے جسمانی بشری وجود میں جمع کر دیئے گئے۔
جب ایک انسان بشری جسم کے ساتھ اس دنیا میں بچہ کی صورت میں وارد ہوتا ہے تو یہ تمام مقامات اس کی ذات میں ہی جمع ہوتے ہیں۔ ایک طرف وہ بشر ہوتا ہے دوسری طرف اللہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَۃِ الرَّحْمٰن ترجمہ:بے شک اللہ نے آدم (انسان) کو رحمن (اللہ) کی صورت پر تخلیق کیا‘‘۔ ہر عالم‘ ہر علم‘ ہر مرتبے اور ہر مقام کی تفصیل اس ایک وجود میں جمع ہے۔ اب انسان کو ہر عالم‘ ہر مرتبے اور مقام کے متعلق ہر علم اپنی ہی ذات کے اندر سے حاصل ہونا ہے۔ اگرچہ اس کے لیے ظاہری اسباب بھی ضروری ہیں لیکن علم انسان کے وجود کے باہر نہیں بلکہ اندر موجود ہے۔ وہ علم اللہ تعالیٰ کے متعلق ہو یا اشیا کے متعلق‘ تمام حقائقِ کونیہ و الٰہیہ اسی کی ذات میں جمع ہیں۔ اس لحاظ سے انسان ’’کتاب جامع‘‘ ہے۔ وہ جس قدر اپنی ذات میں غوروتفکر کے ذریعے سفر کرے گا اسی قدر ’’علم‘‘ حاصل کرے گا، خالق کے متعلق بھی اور مخلوق کے متعلق بھی۔ ہر شے کا علمی وجود اس کی ذات میں پنہاں ہے کیونکہ اسی کی ذات میں قلم اور لوح‘ نور اور روحِ قدسی کی صورت میں موجود ہیں۔قلم میں ہر شے کا جامع علم موجود ہے اور لوح میں تفصیلی علم موجود ہے۔ البتہ اس علم تک رسائی کے لیے نفس کے پردے کا شفاف اور لطیف ترین ہونا ضروری ہے۔ جس قدر نفس شفاف اور لطیف ہوگا اسی قدر علمِ حق علمِ انسان بنتا جائے گا۔ اس شفاف لطیف پردے سے جب نورِ حق اور نورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم واضح دکھائی دے گا تب ہی لوح اور قلم میں موجود علم (حقائقِ الٰہیہ اور کونیہ) واضح طور پر پڑھا جا سکے گا۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبالؒ نے فرمایا:
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
عام انسانوں میں علمِ حق و خلق موجود تو اپنی اصل صورت میں ہی ہوتا ہے لیکن نفس کے پردے کے شفاف نہ ہونے کے باعث انہیں اشیاء اور حق تعالیٰ کا حقیقی صحیح علم حاصل نہیں ہوتا بلکہ جیسا ان کا نفس انہیں دکھائے گا ویسا ہی علم حاصل ہوگا۔
انسانِ کامل وہ ہے جس کے نفس کا پردہ شفاف اور لطیف ترین ہے اور جس کو تمام علمِ حق اور علمِ خلق مکمل طور پر اور حقیقی صورت میں حاصل ہے پس وہ جامع ترین کتاب ہے۔ اُم الکتاب بھی اور کتاب مبین بھی جس میں تمام علمِ حق و خلق مکمل ظاہر ہے اور اسی بنا پر علمِ الٰہی اور علمِ انسان میں مشابہت ہے کہ جیسا علم ذاتِ حق تعالیٰ میں موجود ہے بعینہٖ ذاتِ انسانِ کامل میں ظاہر ہے۔ ذاتِ حق تعالیٰ اور ذاتِ انسانِ کامل میں بھی مشابہت ہے۔ جیسے جیسے ذاتِ حق تعالیٰ نے نزول کیا ویسے ویسے ذاتِ انسانِ کامل نے تکمیل پائی۔ نزولِ حق تعالیٰ ہی وجودِ انسانِ کامل ہے۔ انسان کامل کی ذات میں ہی ظہور اور نزول کے مراتب مکمل ہوئے۔ اس لیے ذاتِ انسانِ کامل ذاتِ حق تعالیٰ کی مشابہ اور اس کا آئینہ ہے۔
(یہ مضمون سلطان الفقر پبلیکیشنز کی مطبوعہ ’’مرآۃ العارفین (ترجمہ و شرح) سے اخذ کیا گیا ہے۔)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں