Faqr-e-Mohammadi

فقرِ محمدی عشق اور دیدارِالٰہی–Faqr-e-Mohammadi-Ishq-aur-Deedar-e-Elahi

Spread the love

Rate this post

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری۔لاہور

سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے :
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنّیِ ۔
ترجمہ:’’فقر میرا فخر ہے فقر مجھ سے ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنّیِ فَافْتَخِرُّ بِہٖ علٰی سَا ءِرِالْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَo
ترجمہ:’’فقر میرا فخر ہے فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا ومرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘ (عین الفقر)
عام طور پر لوگ فقر سے مراد تنگدستی لیتے ہیں لیکن تصوف میں فقر سے مراد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی اپنی صحبت سے ظاہری و باطنی تربیت فرما کر انہیں اللہ تعالیٰ کے دیدار و معرفت کی نعمت عطا فرماتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (الجمعہ ۔۲)
ترجمہ : وہی تو ہے جس نے ان اُمیوں (اَن پڑھوں) میں اپنا ایک رسول بھیجا جو ان پر ہماری آیات تلاوت کرتا ہے ، ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقر کے مختارِ کُل ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے بغیر فقر کی امانت کسی کو بھی منتقل نہیں ہوتی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی وراثتِ فقر خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا، بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو منتقل ہوئی اور انہی کی بدولت یہ وراثت آگے چلی ۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقرکی پہلی سلطان ہیں ۔ خاتون ہونے کے ناطے حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا مسندِ تلقین و ارشاد پر نہ بیٹھ سکتی تھیں۔ باب فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے توسط سے فقرِ محمدی اُمتِ محمدیہ تک پہنچا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ جامع الاسرار میں فرماتے ہیں:
* خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرارضی اللہ عنہا فقرکی پَلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا جو فقر تک پہنچتا ہے انہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بارے میں سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر) میں کمال امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو نصیب ہوا جوحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اورخاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* ’’فقر کے کمال فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام اور مرتبہ پر یہ چاروں ہستیاں (اہلِ بیتؓ) یکتا اور متحد ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے جب تک ان چاروں ہستیوں کے مقام اور مرتبہ کے بارے میں طالبِ مولیٰ بھی یکتا نہیں ہو جاتا فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور دیگر احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باطنی ورثہ (فقر) کے امین ہیں۔
سیرا لاقطاب،شریف التواریخ اور آئینہ تواریخ تصوف میں منقول ہے کہ ایک روزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفلِ اقدس میں چاروں اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم موجود تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ سے فرمایاکہ ہم کو شبِ معراج میں جو خرقۂ فقر جنابِ ربانی سے عطاہوا تھا وہ اگر تم کو پہنایا جائے تو اس کا حق کس طرح ادا کرو گے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں صدق اختیا ر کروں گا۔ ‘‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ سے بھی یہی سوال پوچھا ، انہوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! میں عدل اختیار کروں گا۔‘‘ پھریہی سوال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ سے پوچھا،انہوں نے عرض کیا کہ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! میں حیا اور تحمل اختیار کروں گا۔‘‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہی سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا ’’اگرخرقۂ فقر مجھے عطا ہوتو میں اس کے شکر یہ میں پردہ پوشی اختیار کرو ں گا،لوگوں کے عیب ڈھانپوں گا اور ان کی تقاصیر سے درگزر کروں گا۔‘‘اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہایت خوش ہو کر فرمایا ’’اے علیؓ جس طرح رضائے مولا و رضائے محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھی تو نے اسی طرح جواب دیا ہے۔پس یہ خرقہ تیرا ہی حق ہے، اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ کو خرقۂ فقر پہنایا اور بشارت دی تم شہنشاہِ ولایت ہواور میری تمام اُمت کے پیشوا ہو۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اس حقیقت کو یوں بیا ن کرتے ہیں:
* حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فقر پایا۔ (عین الفقر،محک الفقر کلاں)
* آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ (جامع الاسرار )
* فقرا کے پیرحضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔(جامع الاسرار )

فقرِ محمدی ؐ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
فرمانِ حق تعالیٰ ہے :
ترجمہ: ’’یہ فضل ہے اللہ کا ،عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔‘‘
ہزاروں لوگ فقر کے نام سے واقف ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف و ہی فقر کے کمال تک پہنچتے ہیں جو خواہشاتِ نفس سے اپنی گردن چھڑالیتے ہیں اور جو فقر کے کمال تک پہنچتا ہے وہ فقر پا لیتا ہے اور وہی اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
ترجمہ:’’فقر جب مرتبۂ کمال تک پہنچتا ہے تو اللہ ہی اللہ ہے۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نورالہدیٰ کلاں میں فرماتے ہیں’’فقر کے دو مرتبے ہیں،ابتدا میں عاشق اور آخر میں معشوق۔ عاشق کی ریاضت دیدارِ الٰہی ہے،عاشق پر ذکر فکر اور ورد و وظائف حرام ہیں،عاشق کا نیک وبد اور طلب و مطالب سے کیا کام؟‘‘
مرتبۂ فقر مرتبۂ معشوق ہے۔ معشوق کو جس چیز کی طلب ہو عاشق اُسے مہیا کردیتا ہے بلکہ معشوق کے دل میں جو خیال گزرتا ہے عاشق کو اُس کی خبر ہوجاتی ہے اور وہ اس کی خواہش کو ایک ہی نگاہ میں پورا کر دیتا ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق ہی ایمانِ کامل ہے اس لیے کہا جاتا ہے فقرِ محمدی عشق کاہی دوسرا نام ہے ، وہ عشق جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیااور عاشقانِ رسول ؐ کہلاتے ہوئے تکمیلِ ایمان کی نعمت سے سرفراز ہوئے ۔
سیّدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ عشق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتیں ہیں:
’’میرے والد گرامی سارا سارا دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر رہتے۔ جب عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تو جدائی کے یہ لمحے کاٹنا بھی ان کے لیے دشوار ہو جاتا۔ وہ ساری ساری رات ماہی بے آب کی طرح بے تاب رہتے ۔ہجر و فراق میں جلنے کی وجہ سے ان کے جگر سوختہ سے اس طرح آہ اُٹھتی جس طرح کوئی چیز جل رہی ہے اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ اقدس کو نہ دیکھ لیتے۔‘‘
صحابہ کرامؓ کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد بھی ان کے نزدیک یہی ایمان تھا کہ وہ کسی بھی شے سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بغیر نسبت قائم ہی نہیں کرتے تھے۔
ایک مرتبہ سیّدنا عمر فاروقؓ حج پر آئے، طواف کیا اور حجرِ اسود کے سامنے کھڑے ہو کر فرمانے لگے ’’بیشک تو ایک پتھر ہے جو نفع پہنچاسکتا ہے نہ نقصان۔اگر میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ بوسہ دیتا ‘‘ یہ فرمانے کے بعد آپؓ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کو قریش کی طرف سفیر بنا کر بھیجا تو قریش نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کو کعبہ کا طواف کرنے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا میں اس وقت تک طوافِ کعبہ نہیں کرسکتا جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کا طواف نہ فرمائیں۔ (الشفاء)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سوال کیا گیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپؓ کو کیسی محبت تھی ؟ فرمایا’’اللہ کی قسم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں ہمارے مال،اولاد ،باپ،ماں اور پیاسے کے لئے ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ پیارے اور محبوب ہیں۔‘‘(شفاء جلد ۲)
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کی مخلوق میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ محبوب کوئی نہیں۔ (شفاء جلد۲)
عاشقِ رسول سیّدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ کے وصال کا وقت آیا تو اُنؓ کی زوجہ محترمہ نے کہا! ہائے غم۔ سیّدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ نے اسی وقت فرمایا واہ خوشی! کل محبوب سے ملوں گا اور اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اُن کے محبوبوں کا دیدار کروں گا۔ (زرقانی المواہب جلد۶۔ شفاء جلد ۲)
تمام اصحاب رضی اللہ عنہم مرتبۂ محبوبیت پر فائز تھے اور ہر صحابی رضی اللہ عنہ کو کوئی نہ کوئی صفتِ خاص عطا کی گئی۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’پیر چار ہیں۔‘‘
صدق صدیقؓ و عدل عمرؓ پُرحیا عثمانؓ بود
گوئے فقر شاہِ محمد شاہِ مرداں می ربود
ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے صدق،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے عدل،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے حیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فقر پایا۔ (عین الفقر)
آپؒ فرماتے ہیں:
حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو ’’چار پیر‘‘ فرمایا ہے کیونکہ ان چاروں کی ’’توجہ‘‘ سے باطن میں فقر کی تکمیل ہوتی ہے لیکن ’’بابِ فقر ‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (شمس الفقرا)
اگر کوئی یہ کہے کہ کیا اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم کو فقر کی نعمت ملی ؟ اس کے جواب میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’یاد رہے ’اصحابِ پاک رضی اللہ عنہم کے بعد ‘ (لفظ ’اصحابِ پاک کے بعد ‘ غور فرمائیں اس کا مطلب ہے اصحابِ پاکؓ کو فقر کی نعمت ملی) فقر کی نعمت و دولت دوحضرات نے پائی ایک غوثِ اعظم محی الدین حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے حضرت امام ابو حنیفہ کوفی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ ایک تارکِ دنیا صوفی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ستر سال تک نہ کوئی نماز قضا کی نہ روزہ ۔اور ایسا ہی کمال (الفقر فخری میں)صالحہ و ساجدہ ولیہ حضرت بی بی رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کو نصیب ہوا۔ (شمس الفقرا)

فقرِ محمدی ؐ اوراولیاء کاملین
* شیخ عبدالواحد بن زید رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ حسن بصریؓ کے خلیفہ ہیں آپؒ فرماتے ہیں ’’صوفی وہ ہے جو اپنے آقا و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ فقر کا تعلق رکھتا ہے ۔‘‘
* حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ اُن کو عطا کرتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘
* حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’فقر دِل (باطن ) کو توہمات(غیر اللہ) سے خالی رکھنے کا نام ہے ۔‘‘
* ابو القاسم امام قشیری رحمتہ اللہ علیہ فقر(فقرِ محمدیؐ) کے بارے میں فرماتے ہیں ’’فقر اولیا کا اشعار ہے اور خواص کا زیور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے انبیا واولیا، متقین اور خواص کے لیے پسند فرمایا ہے۔‘‘ (بابِ فقر)
* حضرت ابوبکر شبلی رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے’’فَفِرُّوٓا اِلَی اللّٰہِ‘‘ کی ادنیٰ اور معمولی علامت اور نشانی یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ساری دنیا ہو اور وہ اسے ایک ہی دن میں خرچ کر ڈالے اور اگر اس کے بعد اس کے دل میںیہ خیال پیدا ہو کہ بہتر ہوتا وہ ایک دن کی خوراک رکھ لیتا تو یہ فقر نہیں۔‘‘
* منصور بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت ابراہیم القصار رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کی ہے’’ جب بندہ حقیقتِ فقر (فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) تک پہنچتا ہے تو فقر اس کا لباس بن جاتا ہے جس سے رضا حاصل ہوتی ہے۔‘‘
* حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے ’’بندے پر اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی علامت یہ ہے کہ بندہ فقر سے ڈرتا ہو۔‘‘
* حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف کشف المحجوب میں فقر کے بارے میں فرماتے ہیں :
ترجمہ:’’فقیر (صاحبِ فقر ) وہ نہیں جو سازوسامان سے خالی ہو بلکہ فقیر وہ ہے جس کا دل آرزووتمنا سے خالی ہو۔‘‘
* حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ اپنی تصنیف عوارف المعارف میں حضرت شیخ ابراہیم الخواصؒ کا قول نقل فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’فقر شرف اور بزرگی کی چادر ،مرسلین علیہم السلام کا لباس اور صالحین کے اوڑھنے کی چادر ہے۔‘‘

فقرِ محمدیؐ اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنی کتاب ہمعات میں بیان فرماتے ہیں:
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اولیا کرام اور اصحابِ طریقت کا سلسلہ چلتا ہے ۔ان میں سے زیادہ قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہِ جذب کو باحسنِ وجود طے کر کے نسبتِ اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور اس میں نہایت کامیابی سے قدم رکھا وہ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ہیں۔‘‘
* سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’فقر (فقرِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی جیسی ہستی (یعنی کسی بندہ) کا محتاج نہ رہ۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہٗ مزید فرماتے ہیں’’فقیر کو چاہیے کہ وہ فقر سے ایسی محبت کرے جیسے دولت مند اپنی دولت سے محبت کرتا ہے۔‘‘
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر میرا فخر ہے) کی جامع تعریف کرتے ہوئے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں’’اس حدیث میں فقر سے مراد وہ فقیری (غربت و افلاس ) نہیں جو عوام میں مشہور ہے بلکہ یہاں حقیقی فقر مراد ہے جس کا مفہوم ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کا محتاج نہ ہونا اور اس ذات کریم کے علاوہ تمام لذات و نعم کا بجان و دل ترک کر دینا۔جب انسان اس مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے تو یہی مقام فنا فی اللہ ہے کہ اس ذات وحدہٗ لاشریک کے سوا انسان کے وجود میں کسی اور کا تصور تک باقی نہ رہے اور اس کے دل میں ذاتِ خدا وندی کے علاوہ کسی اور کا بسیرا نہ ہو۔ (سِرّالاسرار۔فصل نمبر۱۲)
فقرِ محمدیؐ ہی دیدارِ الٰہی کا راستہ ہے ،یہی فقر بندے کو اللہ تک پہنچا سکتا ہے ۔
* اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ رسالتہ الغوثیہ میں فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا ’’اے غوث الاعظم ( رضی اللہ عنہٗ)!اپنے اصحاب و احباب سے کہہ دو کہ تم میں سے جو کوئی میری صحبت چاہے تو فقر اختیار کرے ۔جب اُن کا فقر پورا ہو جائے تو وہ نہیں رہتے بجز میرے۔‘‘

فقرِ محمدیؐ اور سلطان العارفین
حضرت سخی سلطان باھُوؒ
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اُن فقرا کاملین میں سے ہیں جو اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے) کے مقا م کے حامل فقیر ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے اس کامل فقر(فقرِ محمدی) کے مقام کے بارے میں خود فرماتے ہیں:
’’منزلِ فقر میں بارگاہِ کبریاسے حکم ہوا کہ تُو ہمارا عاشق ہے؟اس فقیر نے عرض کی کہ عاجز کو حضرتِ کبریا کے عشق کی توفیق نہیں ہے۔پھر حکم ہواتُو ہمارا معشوق ہے ؟ اِس پر یہ عاجز خاموش ہو گیا تو حضرتِ کبریا کے انوارِتجلی نے بندے کو ذرے کی طرح استغراق کے سمندر میں مستغرق کر دیا اور فرمایا ’تُو ہماری ذات کے عین ہے اور ہم تمہارے عین ہیں۔حقیقت میں تُو ہماری حقیقت ہے اور معرفت میں تُو ہمارا یار ہے اور ھُو میں یا ھو کا راز ہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فقرِ محمدی کی ابتداو انتہا ، اس کے مقامات و درجات کی حقیقتوں کواس طرح عیاں فرمایا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بعدفقر کو مزید بیان کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔
طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات میں سے کچھ اقوال درج ذیل ہیں:
* جان لے کہ طلبِ فقر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طلب ہے۔صحابہ کرامؓ کی طلب اوراولیا اللہ کی طلب ہے۔ (محک الفقرکلاں)
* فقر سلوک سے تعلق نہیں رکھتا ہے کہ وہ صاحبِ سلطنت سلطان الفقر کا بادشاہ ہوتا ہے۔ (امیرالکونین)
* اکثر آدمی کہتے ہیں کہ فقر مشکل ہے۔وہ غلط کہتے ہیں فقر مشکل نہیں ہے بلکہ ہر مشکل کے لیے مشکل کشا ہے۔ (نور الہدیٰ خورد)
* جان لے کہ فقرِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور معرفتِ توحیدِ الٰہی سراسر اطاعت و بندگی ہے جبکہ مراتبِ عزّو جاہِ دُنیا سراسر مردار گندگی ہے اور فقیری اور درویشی سنتِ انبیا علیہم السلام ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
* فقر کی تین اقسام ہیں ۔اوّل فقر فنائے ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ ہے۔ دوم فقر بقائے ’’اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ ہے اور سوم فقر انتہائے ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہُ‘‘ ہے۔ فقر اللہ سے یگانہ اور غیر اللہ سے بیگانہ ہے۔ یگانگی اور بیگانگی کا کوئی جوڑ نہیں جب تک فنا حاصل نہ ہو جائے بقا تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ (عین الفقر)
راہِ فقر فیض است عام
دنیا شرک است مطلق تمام
ترکِ دنیا دہ بیا راہِ خدا
فقر راہِ ہدایت ہادی مصطفیؐ
ترجمہ : راہِ فقر فیضِ ربّانی ہے بلکہ فیضِ عام ہے جبکہ راہِ دنیا سراسر مطلق شرک ہے۔ راہِ دنیا کو ترک کر کے راہِ فقر اختیار کر لے کہ راہِ فقر ہدایت ہے جس کے ہادی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
جو شخص فقرِ محمدی کا منکر اور مخالف ہے اُس کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں:
* جوآدمی فقرِ محمدیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خالی و بے برکت و بے باطن و بے قوت سمجھے وہ خود خالی و بے برکت و بے باطن و بے قوت رہتا ہے۔ (اسرارِقادری)
* جو کوئی فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خالی سمجھتا ہے وہ دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے۔ (امیر الکونین)
* فقر کی طلب وہ شخص کرتا ہے جو صاحبِ معرفت ہو ، فیض و فضل بخش ہو، حلالی و حلال طلب ہو ، جس کا دل ذکرِ اللہ سے زندہ ہو اور وہ فقرِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طالب ہو ۔ پس دنیا کا طالب وارثِ فرعون ہے اور فقرکا طالب وارثِ محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔اہلِ فرعون اور اہلِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس ایک دوسرے کو راس نہیں آتی۔ (محک الفقر کلاں)

فقرِ محمدیؐ اور سلطان الفقر (ششم)
حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ
فقیرِ کامل سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:
* فقرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی وراثت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حقیقت میں وہی حقیقی وارث ہے جو اس وراثت کا وارث ہے۔
* فقر راہِ عشق ہے ۔
* فقر دراصل اللہ تعالیٰ کے دیدار اور مجلسِ محمد ی کی حضوری کا علم ہے۔
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ مبارک ہے اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنّیِo ’’فقر میرا فخر ہے فقر مجھ سے ہے۔‘‘اور ہر امتّی پر یہ فرضِ عین ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فخر، فقر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل کرے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔
* فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے سب سے اعلیٰ خزانہ ہے اور یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تقسیم فرماتے ہیں۔
* فقر اللہ تعالیٰ کا سِرّ (راز) ہے جس نے اس کو فاش کر لیا تووہ رازِ پنہاں سے با خبر ہو گیا اور اس راز کا محرم ہو گیا۔
* فقر کی حقیقت اور اس راز کی کنہ سے وہی واقف ہوتا ہے جس نے فقراختیارکیاہو اور اس کی منازل سے گزرا ہو، لذتِ آشنائی حاصل کر چکا ہو اور جس نے باطن میں سلطان الفقر کا دیدار کیا ہو اور اس کی پہچان حاصل کی ہو۔
* راہِ فقر میں تمام منازل و مقامات مرشد کامل اکمل کی نگاہ، باطنی توجہ ،ذکرو تصور اور مشقِ مرقومِ وجودیہ اسمِاللہ سے طے ہوتے ہیں اس کے علاوہ فقر کی انتہا تک پہنچنے کا کوئی اور رستہ نہیں ہے۔ (اقتباس از: سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ حیات و تعلیمات)

فقرِ محمدیؐ اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
فقر موجودہ دور میں بھی اسی شان و شوکت سے دنیا میں ورثۂ محمدی کی صورت میں موجود ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مبارکہ میں اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ہر دورمیں رہا۔ موجودہ دور کے فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں اور قدمِ محمدپر فائز ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی نظرِکرم کی بدولت کثیر تعداد میں طالبانِ مولیٰ کو نہ صرف مجلسِ محمدی کی حضوری حاصل ہوئی ہے بلکہ انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شرف بھی نصیب ہوا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
* فقر کے لغوی معنی تو تنگدستی ا ور احتیاج کے ہیں، لیکن عارفین کے نزدیک یہ وہ منزلِ حیات ہے جس کے متعلق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔‘‘
* فقر ایک خاص باطنی مرتبہ اور کمال ہے ۔اس کے مقابلہ میں باطن میں نہ کوئی مرتبہ ہے نہ کمال۔
* فقر دراصل ان لوگو ں کا ازلی نصیب ہے جو روزِ الست دنیا اور عقبیٰ کی تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہے اور کائنات کی تمام لذتیں ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کر سکیں ۔
* فقر راہِ دیدارِ الٰہی ہے۔
* فقر کا ظاہر خلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور فقر کا باطن لقا و وصالِ الٰہی ہے۔
* فقر کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ فقر کو سمجھنا ہے تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو سمجھ لو، فقر کوئی مسئلہ نہ رہ جائے گا۔
* فقر وہ مرتبہ ہے جہاں انسان ہر طرح کی حاجات سے بے نیاز ہو جاتا ہے ۔صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے مدِ نظر رہتی ہے۔اس لیے ہر حال میں تقدیرِ الٰہی سے موافقت اختیا ر کیے رکھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے قرب کے سوا وہ نہ اللہ سے کچھ مانگتا ہے اور نہ اللہ کے غیر سے کچھ طلب رکھتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی منشاو رضا میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہے۔اس کے قرب وحضور کے سوا کچھ نہیں مانگتا۔
* اللہ تعالیٰ اگر بے حجاب ہے تو صرف فقر میں ہے۔
* حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رُخِ مبارک ہی فقر ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
* ابتدائے فقر (فقرمحمدیؐ)تصور اسمِاللہ ذات ہے۔ (محک الفقر کلاں)
یعنی فقر (دیدارِ حق تعالیٰ ) کے طالب کو چاہیے وہ صاحبِ مسمّٰی جامع نورالہدیٰ مر شد کامل اکمل کو تلاش کرے اور جب اسے پا لے تو اُس سے ذکرو تصور اسم اللہ ذات طلب کرے۔ مرشد کامل اکمل کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
* مرشدپہلے دن اسمِ اللہ ذات لکھ کر طالب کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے کہتا ہے اے طالب اسمِ اللہ ذات دل پر لکھ اور اس کا نقش جما۔ جب طالب تصور سے دل پر اسمِ اللہ ذات نقش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مرشد طالب کوتوجہ دے کر کہتا ہے اے طالب! اب اسمِ اللہ ذات کو دیکھ۔ چنانچہ اسی وقت اسمِ اللہ ذات آفتاب کی طرح تجلّیِ انوار سے روشن اور تاباں ہوجاتا ہے۔ (نورالہدیٰ)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس، سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اورذکرو تصوراسمِ اللہ ذات کا فیض عام فرما رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذاتِ بابرکات تمام طالبانِ حق کے لیے فیض کا باعث ہے۔ اگر کوئی ادب، یقین اور خلوصِ نیت سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور دیدارِ حق تعالیٰ کی التجا لے کر آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتا ہے تو ضرور دِل کی مراد پاتا ہے۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں