فَبِِأَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ |Fabi-Ayyi Ala-i Rabbikuma Tukaththiban


3.2/5 - (4 votes)

فَبِأَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ
پس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔

تحریر: فائزہ سعید سروری قادری۔ سوئٹزر لینڈ

اللہ اس کائنات اور ہر مخلوق کا خالق و مالک ہے۔ اس نے یہ کائنات اپنی ذات کے اظہار اور پہچان کے لیے بنائی اور اس مقصد کے لیے اس نے انسان کو منتخب فرمایا اور اسے دیگر مخلوقات پر برتری عطا کی اور اس کے اندر یہ صلاحیت رکھی کہ وہ اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کر سکے۔ اس کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر دیا اور بیشمار نعمتیں عطا فرمائیں تاکہ وہ اس سے مستفید ہو اور ہر طرح کی سہولت حاصل کر سکے لیکن انسان جو اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اللہ کی ذات کو فراموش کر چکا ہے وہ اللہ کی نعمتوں کو کیا یاد کرے گا اور جب یاد نہیں کریگا تو شکرگزار بھی نہیں ہوگا۔ اسی یاد دہانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ رحمن میں نہ صرف اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا بلکہ انسان کو تنبیہ کرتے ہوئے 31بار ایک آیت کا تذکرہ فرمایا ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے:
فَبِأَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (سورۃ الرحمن)
 ترجمہ: پس تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
اس آیت کے بار بار تذکرہ کرنے سے ہی اس بات کا اندازہ کر لینا چاہیے کہ اللہ پاک چاہتا ہے کہ انسان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا نہ صرف ادراک حاصل کرے بلکہ اس کو فراموش کرتے ہوئے اس کا انکار نہ کرے۔ اسی لیے اس آیت میں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں ایک اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ اور دوسرا اِن کی تکذیب یعنی ان کو جھٹلانا۔ اگر ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو شمار کرنا شروع کر دیں تو یہ ایک ناممکن عمل ہے۔ جس طرح دریا کو کو زے میں بند نہیں کیا جا سکتا اسی طرح اللہ کی نعمتوں کا شمار بھی ناممکن ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ پاک خود فرماتا ہے:
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ النحل ۔18 )
ترجمہ اور اگر تم اللہ کی نعمتو ں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے۔ بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جب آدم ؑ کو زمین پر اُتارا تو ان کے ساتھ کے لیے حضرت حوا ؑ کو بھی بھیجا اور رہتی دنیا تک نیک مردوں کو صالح بیویاں عطا کیں اور پھر نیک و پاک اولاد، یہ سب اللہ کی نعمتیں ہی تو ہیں۔ جانور پیدا کیے اور کھیتیاں اُگائیں تاکہ کھا پی سکیں اور لباس تیار کر سکیں۔ سورج، چاند، ستارے، زمین و آسمان پیدا کیے۔ پانی اور ہوا پیدا کئے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی تو ہے جس نے ہمیں دیکھنے اور سننے کی نعمت سے نوازا۔ عقل، صحت اور مال و دولت اور عیال کی نعمتیں دیں۔سورج، آسمان، زمین اور دیگر مخلوقات سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے دماغ اور سمجھ بوجھ سے نوازا۔ قرآنِ پاک میں اللہ نے اپنی عطا کردہ نعمتوں کا تذکرہ جا بجا فرمایا ہے:
 وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے فائدے کے لیے پانی اُتارا اسی میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجرکاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم ( اپنے مویشی ) چراتے ہو۔ اسی پانی سے تمہارے لیے کھیت، زیتو ن اور کھجو ر اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اُگاتا ہے۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور اسی نے تمہارے لیے رات اور دن کو اور سورج و چاند کو مسخر کر دیا اور تمام ستارے اُسی کے حکم کے پابند ہیں۔ بے شک اس میں عقل رکھنے والو ں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور اسی نے زمین پر رنگ برنگ قسم کی مخلوقات تمہارے (فائدے کے) لیے پیدا فرمائیں۔ بے شک اس میں نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نشانی ہے۔ اور وہی ہے جس نے سمندر کو بھی تمہارے لیے مسخر کر دیا کہ تم اس سے ترو تازہ گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی نکالو جنہیں تم زیبائش کے لیے پہنتے ہو اور (اے انسان) تو کشتیوں کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتی ہیں (اور یہ سب کچھ اس لیے کیا) تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور یہ کہ تم اس کے شکرگزار بن جاؤ۔ ( سورۃ النحل 10-14)
سورۃ البقرہ میں ارشادِ بار ی تعالیٰ ہے :
’’وہی ہے جس نے تمہاری بقا اور تمہارے فائدے کے لیے زمین میں ہر طرح کی چیزیں تخلیق فرمائیں۔ (البقرہ۔29)
اپنی ایک اور نعمت کا ذکر اللہ پاک یوں فرماتا ہے:
اور چوپائے پیدا کئے ان میں تمہارے لیے گرم لباس اور فوائد ہیں اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے (بھی) ہو۔ ( سورۃ النحل۔ 5)
 مزید فرمایا:
’’تو اس میں ہم نے تمہارے لیے باغ پیدا کئے کھجورو ں اور انگوروں کے تمہارے لیے ان میں سے بہت سے میوے ہیں اور ان میں سے کھاتے ہو۔ (المومنون ۔19)
ہم دنیا میں پہلی سانس لیتے ہیں تو ماں باپ کی شفقت کی صورت میں اللہ کی نعمتوں اور رحمتوں کی بارش برسنا شروع ہو جاتی ہے جو نہایت محبت سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ جوں جوں بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہیں اللہ پاک رشتے ناطے، روزگار، اولاد، مال و دولت، دوست احباب اور بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے اور جب تک زندہ رہتے ہیں نوازتا چلا جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی۔‘‘ (سورۃ ابراہیم  34)
بلکہ اس قادرِ مطلق کی شان تو یہ ہے کہ بنا مانگے ہر وہ چیز عطا کر دیتا ہے جس کا ہمیں ادراک بھی نہیں ہوتا۔
مندرجہ بالا نعمتیں ایسی ہیں جو کہ ایک جسمانی وجو د رکھتی ہیں لیکن اللہ کی بے شمار نعمتیں ایسی بھی ہیں جن کا ظاہری وجود تو نہیں لیکن ان نعمتوں کی بدولت اللہ کی عطا کردہ باقی نعمتوں کو بہتر طریقہ سے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے عقل، شعور، علم، بیان کی قوت اور ہدایت قابل ِ ذکر ہیں۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ  (سورۃ العلق۔ 5)
ترجمہ: انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔
او ر اسی علم کی بدولت اور اللہ کی عطا کی گئی عقل کو استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کو تسخیر کیا اور فائدہ حاصل کیا۔ اللہ نے شعور دیا تو ہم نے انسان و حیوان میں فرق کیا او ر ایک پر تمدن اور تہذیب یافتہ معاشر ہ بنایا جس سے ایک پُرسکون زندگی حاصل ہوئی۔ بیان کی طاقت عطا ہوئی تو حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ نے معافی طلب کی۔ اس بیان کی نعمت کی بدولت ہی علمائے دین اللہ کا پیغام دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کسی چیز کو بھول جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ اگر یہ نعمت موجود نہ ہو تو ہم اپنے پیاروں کی موت کا غم اور قیمتی اشیا کی گمشدگی پر ساری زندگی روتے اور ملال کرتے رہتے۔ انسان کے منہ میں پیدا ہونے والا لعاب بھی اللہ کی نہایت بڑی مہربانی ہے جس کا ہمیں احساس بھی نہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو کھانا صحیح ہضم نہ ہو اور چند لفظ ادا کرنے کے بعد ہی منہ خشک ہو جائے اور بار بار پانی کی طلب ہو۔
ہمارے جسم میں موجود چھوٹے چھوٹے سوراخ یعنی مسام (Pores) جو کہ جسم میں پیدا ہونے والے زہریلے مادوں کے اخراج کا باعث بنتے ہیں۔
الغرض اللہ کی بیشمار نعمتیں ہیں جن کا ہمیں شعور تک نہیں اسی لیے تو اللہ پاک نے سورۃ رحمن میں بار بار تذکرہ فرماتے ہوئے احساس دلایا کہ تم اللہ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ہم تو غور و فکر ہی نہیں کرتے ورنہ اگر سوچنا شروع کریں تو صبح جاگنے سے لیکر رات سونے تک اور رات سونے سے صبح اُٹھنے تک ہر لمحہ اللہ کی بیشمار نعمتیں اور رحمتیں ہمیں حاصل ہیں اور مسلسل عطا ہوتی رہتی ہیں۔ وہ سانس جو ہم لیتے ہیں اس سے بڑھ کر نعمت کیا ہو سکتی ہے۔ ذرا سانس لینے میں دشواری ہو سب کی جان پر بن آتی ہے۔پس انسان ان نعمتوں اور رحمتوں سے غافل ہے اور اللہ کا شکرگزار نہیں بنتا۔
سورۃ ابراہیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَاط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ(سورۃ ابراہیم ۔34)
ترجمہ ’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکر گزار ہے‘‘۔
اب ہم آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں۔ یعنی تکذیب۔ تکذیب کے معنی ہیں ’’کسی چیز کو جھٹلانا‘‘۔ یہاں اللہ پاک کی نعمتوں کو جھٹلانا یا ان کا انکار کرنا ہے۔ تکذیب کی دو اقسام ہیں۔
 1۔ تکذیب ِلسانی 
 2۔ تکذیب ِعمل

تکذیب ِ لسانی 

اس سے مراد اللہ کی نعمتوں کو اللہ کی طرف سے نہ ماننا بلکہ ان کو کسی دیوتا یا کسی انسان سے منسوب کر دینا۔ اور یہ سراسر توحید کے منافی ہے اور شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ جو کچھ بھی ہے اللہ کا ہی ہے اور اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ( سورۃ ابراہیم۔ 2)
یہ خصوصاًمشرکین کا شیوہ ہے لیکن کبھی کبھی مسلمان بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں جب وہ کسی کامیابی، روزی اور دوسری نعمتوں کو کسی انسان سے منسوب کرنے کی غلطی کرتے ہیں۔
حضرت خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے کہ:
 ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر رات بارش ہونے کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سلام پھیرا او ر رُخ مبارک لوگوں کی طرف کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کیا فرما رہا ہے؟‘‘ صحابہ کرام نے عرض ’’ اللہ اور اس کا رسول ؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندوں میں سے بعض نے ایمان کی حالت میں صبح کی او ر بعض نے کفر کی حالت میں صبح کی۔ جنہوں نے کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ تو میرے مومن ٹھہرے اور جنہوں نے یہ کہا کہ ہم پر یہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی وہ کفرکرنے والے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔‘‘

تکذیب ِ عمل 

تکذیب ِعمل سے مراد ہے کہ یہ بات تو ماننا کہ تمام نعمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں لیکن عملاً اللہ کی ربوبیت کو ماننے کے بعد جو لازمی عمل ہے اس کا انکا ر کرنا یعنی تمام نعمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں یہ تو ماننا لیکن ان کا حق ادا نہ کرنا تکذیب ِ عمل کہلاتا ہے مثلاً ہم جانتے ہیں کہ قرآن اللہ کی بہترین نعمت ہے لیکن ہم اس پر عمل نہیں کر رہے یعنی ہدایت حاصل نہ کر کے ہدایت جیسی نعمت کی تکذیب کر رہے ہیں۔ مال و دولت کو اللہ کی مرضی کے مطابق اس کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے فضولیات میں غلط انداز میں خرچ کر رہے ہیں۔ علم جیسی نعمت اگر عطا ہوئی ہے تو اس کو پھیلانے کی بجائے اپنے تک محدو د رکھا ہوا ہے۔ ایسے ہی لوگو ں کے لیے سورۃ النحل میں فرمانِ الٰہی ہے’’یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچان لیتے ہیں لیکن اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ (النحل۔83)
نعمتوں کی تکذیب ناشکری کر کے بھی ہوتی ہے۔ جب انسان اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال تو کرتا ہے لیکن اللہ کے حضور شکر گزار نہیں ہوتا۔ نا شکرے انسان کی قرآن میں بہت مذمت کی گئی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 ’’ اور جب تمہارے ربّ نے صاف اعلان فرما دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور دو ںگا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب بہت سخت ہے ۔(سورۃ ابراہیم۔ 7)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ہم ناشکری کریں گے تو اللہ انہی نعمتوں کو ہمارے لیے عذاب میں تبدیل کر دے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ شکر نعمتوں کا محافظ اور اللہ کے فضل میں اضافے کا باعث ہے تو غلط نہ ہوگا۔
یعنی شکر گزاری کی بدولت ہی ہدایت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مختصراً بیان کرتے چلیں کہ اللہ کی نعمتوں کا انکا ر کس کس طرح ہوتا ہے۔
1۔ انسان کا یوں کہنا کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو میں بھوکا مر جاتا رازق کے رزق دینے کی نعمت کا انکار ہے۔
2۔ یوں کہنا کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو میں کبھی مشکل سے نہ نکل سکتا اس کے آسانی دینے کی نعمت کا انکا رہے۔
3۔ یوں کہنا ڈاکٹر اچھا نہ ہو تا تو بچ نہ سکتے اس کے شفا دینے کی نعمت کا انکار ہے ۔
4۔ کفار کا یوں کہنا کہ ہمیں ہمارے خداؤں کی بدولت سب ملااس کی تمام نعمتوں کا انکار ہے۔ یا ہر نعمت کو خود سے منسوب کر لینا۔ جیسے کہنا میں نے خود ہی سب حاصل کیا اپنے بل بوتے پر۔ میں نے اپنی محنت سے کامیابی حاصل کی، میرے پاس جو کچھ ہے میری محنت کا صلہ ہے۔ اور شاید یہ سب سے بڑی تکذیب ہے۔
5۔ حقیقی مسبب الا سباب کی جگہ ظاہری اسباب پر نظر رکھنا نہ صرف شرک ہے بلکہ اللہ کی تمام نعمتوں کا انکا ر ہی تو ہے۔

نعمت ِ عظیم

اللہ پاک کی سب سے بڑی عطا اور سب سے اہم اور خاص الخاص نعمت ’’ہدایت‘‘ ہے۔ ہدایت کا معنی ہے رہنمائی، راہبری، سیدھا راستہ دکھانا، صحیح بات بتانا۔اگر کسی کو ہدایت نصیب ہو جائے اور وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جائے تو اس سے بڑھ کر اللہ کی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ وہ نعمت ہے جس کے بنا پر ہماری آخرت کی زندگی جو کہ ابدی و دائمی زندگی ہے‘ وہ سنورتی ہے۔ اللہ کی بیشمار نعمتیں اس دنیا میں ہمارے استعمال کے لیے ہیں جو اس دنیا میں ہماری زندگی کو آسان اور پُرآسائش بناتی ہیں لیکن ہدایت وہ نعمت ِ خاص ہے جو نہ صرف اس دنیا میں ہماری زندگی کو خوبصورت اور اللہ کی رضا کے مطابق بناتی ہے بلکہ اس دنیا میں ہدایت ملنے پر کیے جانے والے اعمال کی بنا پر اللہ پاک آخرت میں اپنا قرب اور دیدار بھی عطا کرے گا۔
 ہدایت کا ذریعہ اور منبع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ بابرکات اور قرآنِ مجید ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے بھی عوام الناس کی ہدایت کے لیے انبیا و مرسلین کو بھیجا۔ لیکن کامیاب وہی ہوئے جنہوں نے ان کی پیروی کی جبکہ جنہوں نے ان انبیا کو جھٹلایا اللہ نے ان سے ہدایت چھین لی اور وہ گمراہ ہوئے اور پھر باقی تمام نعمتیں بھی آسائش کی بجائے ان کے لیے آزمائش بن گئیں۔ اگر وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے تو اللہ انہیں نہ صرف مزید نعمتوں سے نوازتا بلکہ ہدایت بھی عطا فرماتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہ صرف منبع ہدایت ہیں بلکہ آپ رحمتہ اللعالمین بھی ہیں۔ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ’’میری رحمت ہر شے سے وسیع ہے‘‘ (الاعراف۔156) پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی رحمت کی صورت میں اللہ کی نعمت ِ عظیم ہیں جنہوں نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحے تک اپنی امت کو فراموش نہیں کیااور اللہ تعالیٰ سے اپنی امت پر مہربانی کی دعا فرماتے رہے۔ انبیا کرام کا سلسلہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہو جانے پر نہ تو ہدایت کا سلسلہ منقطع ہوا اور نہ ہی اللہ کی رحمت ختم ہوئی۔ ہدایت و کرم نوازی کا سلسلہ فقرائے کاملین کی صورت میں رواں دواں ہے اور رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کا وہ جوہر ِ خاص جس سے آپ نے اپنی امت کے خاصان کو مستفید فرمایا اور جس پر فخر بھی فرمایا وہ نعمت ِ خاص فقر ِ محمدیؐ ہے جس کے حصول کے لیے انبیا کرام علیہم السلام بھی دعا کرتے رہے کہ کاش وہ نبی آخر زماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہو سکیں۔ پس فقر ِ محمدیؐ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کی بہترین صورت ہے اور اس سے بڑھ کر نعمت کوئی نہیں ہو سکتی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر کی یہ نعمت اور امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل ہوئی اور پھر سینہ بہ سینہ یہ امانت سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے منتقل ہوتی ہوئی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچی اور وہاں سے یہ امانت میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے پاس ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نہایت خوش اسلوبی سے فقر کی اس نعمت سے طالبانِ مولیٰ کو نواز کر انہیں ہدایت و صراطِ مستقیم کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل سے ناقصوں کو کامل بناتے ہیں اور ان کے نفوس کا تزکیہ فرماتے ہیں اور مادیت پرستی کے اس دور میں تزکیہ نفس کی نعمت و دولت کا میسر آ جانا نعمت ِ عظیم ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور اس نعمت پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 ’’ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تا کہ نجات حاصل کر سکو۔ (الا عراف ۔69)
اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ دراصل اس کے شکر، توحید کے اقرار اور آخرت میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: جب تو دیکھے کہ نافرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ بندے کو نعمتیں عطا فرمارہا ہے تو وہ استدراج ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
’’جب انہوں نے اس نصیحت کو جو اُنہیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالی کے دروازے ان پر کھول دیئے یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔‘‘  ( الا نعام ۔44)  ( حدیث رواہ احمد )
ہر نعمت کے بارے میں انسان سے سوال کیا جائے گا اسی لیے ہمارا اوّلین فرض ہے کہ ہر نعمت کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کریں اور شکر بجالا ئیں۔ ایسا نہ ہو کہ نعمت ہلاکت کا باعث بن جائے۔ حدیث پاک ہے ’’حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا کیا ہم نے تمہیں صحیح سالم جسم نہ دیا تھا اور ٹھنڈے پانی سے سیراب نہ کیا تھا۔‘‘( ترمذی)
نعمت کا اقرار دل سے، زبان سے اور عمل سے کرنا نہایت اہم فعل ہے اور ایسا نہ کرنا اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اسی لیے جیسے ہی یہ آیت فَبِأَیِّ اٰلَآئِرَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ پڑھی گئی تو حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ الفاظ ادا کیے:
لَا بِشَیْئٍ مِنْ نِعْمَکَ رَبَّنَا نُکَذَّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ
ترجمہ: اے ہمارے ربّ! ہم آپ کی کسی بھی نعمت کا انکار نہیں کرتے۔ پس سب تعریف آپ کے لیے ہے۔
پس ہم سب پر فرضِ عین ہے کہ ہم اللہ کی ہر ہر نعمت کا بالعموم اور نعمت ِ فقر کا بالخصوص شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ اپنی معرفت اور اپنے قرب و وِصال کے لیے فقر کی نعمت عطا فرمائی اور اپنے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے توسط سے لقا کا راستہ امت ِ محمدیہ کے لیے کھولا تاکہ ہم نہ صرف اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے شکرگزار بنیں بلکہ انہیں جھٹلانے یا ان کا انکار کرنے کی خطا سے بچ سکیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان نعمتو ں کو دل سے اللہ کی عطا مانتے ہوئے ان کو اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنا شکر گزار بنائے اور فقر و ہدایت کے سرچشمہ اور سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے فیض ِ فقر اور تزکیہ ٔنفس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں