Sultan ul faqr

سلطان الفقر سوئم ،شیخِ ما سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ– Sultan-ul-Faqr-som Sayyiduna Ghous-ul-Azam Shaikh Abdul Qadir Jilani

Spread the love

2/5 - (1 vote)

سلطان الفقر سوئم ،شیخِ ماسیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  رضی اللہ عنہٗ

تحریر: انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور

اولیا کرام میں سب سے بلند مراتب عارفین کو عطا ہوتے ہیں لیکن عارفین میں بلند ترین مقام ’’سلطان الفقر‘‘ کا ہے۔ فقر عین ذات پاک ہے اور سلطان الفقر وہ ہستی ہوتی ہے جو ذاتِ حق کا عین ہو ۔ یہ کہنا بھی ہرگز غلط نہ ہو گا کہ سلطان الفقر کے حقیقی مقام و مرتبے کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
سلطان الفقر کون ہیں؟
سلطان الفقر ہستیوں کی شان اور مقام و مرتبے کے بارے میں سب سے پہلے بانی سلسلہ سروری قادری، نورِ ھُو، سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیفِ مبارکہ’’رسالہ روحی شریف‘‘ میں ذکر فرمایا۔ آپؒ فرماتے ہیں:
* ’’جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی سے رونق بخشی، اِس حسنِ بے مثال اور شمعِ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اُٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کرصورتِ احمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اختیار کی۔ پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا با صفا فنا فی اللہ ،بقا باللہ تصورِ ذات میں محو ،تمام مغز بے پوست حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے، اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ انہوں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو کبھی سنا۔ وہ حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں اوراِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے)کے فیض کی چادر ان پر ہے۔ پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ اَلْفَقْرُ لَایُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَ لَا اِلٰی غَیْرِہٖ (وہ نہ تو اپنے ربّ کے محتاج ہیں اور نہ ہی اس کے غیر کے) کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔انہیں حضرت آدمؑ کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں۔ان کا قدم تمام اولیا اللہ غوث و قطب کے سر پر ہے۔اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔اس راز کو جس نے جانا اس نے ان کو پہچانا۔ اُن کا مقام حریمِ ذاتِ کبریا ہے۔انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہیں مانگاحقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں ، حوروقصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھااور جس ایک تجلّی سے حضرت موسیٰؑ سرا سیمہ ہوگئے اور کوہِ طور پھٹ گیاتھا ہر لمحہ ہر پل جذباتِ انوارِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارد ہوتی ہیں لیکن وہ نہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ وہ سلطان الفقر اور سیّد الکونین ہیں۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)

یہ مبارک ارواح سات ہیں اور ان کے اسمائے مبارک کا انکشاف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
* ’’ان میں ایک خاتونِ قیامت (حضرت سیّدہ فاطمتہ الزہرا) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روح مبارک ہے، ایک حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی روح مبارک ہے۔ ایک ہمارے شیخ (شیخِ ما)، حقیقتِ حق، نورِ مطلق، مشہود علی الحق حضرت سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہُ العزیز کی روح مبارک ہے اور ایک سلطانِ انوارسرّالسرمد حضرت پیر عبد الرزاق فرزندِ حضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے۔ ایک ھاھویت کی آنکھوں کا چشمہ سِرّ اسرار ذاتِ یاھُو فنا فی ھُو فقیرِ باھُوؒ (قدس سِرّہُ العزیز) کی روح مبارک ہے اور دو ارواح دیگر اولیا کی ہیں۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
محی الدین سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سلطان الفقر کے اس بلند مرتبہ پر فائز ہیں اور اس شان و مرتبہ کے ادراک سے مخلوقاتِ عالم عاجز ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو آپؓ کا منکر ہے ،وہ کافر ہے منافق ہے اور خارج از دائرۂ اسلام ہے۔ آپؓ کی ذات پاک ہی وہ واحدجلیل القدر ہستی ہے جنہوں نے حقیقتِ محمدیہ اور حقیقی دینِ اسلام (فقر) کی روح کوتقویت بخشی۔ دینِ حق کو جس شان سے آپؓ نے جاودانی زندگی عطافرمائی اس کی کوئی مثال نہیں اسی لیے آپؓ کو ’’محی الدین ‘‘ یعنی دین کو زندہ کرنے والا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ آپؓ کی شانِ عظیم کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ’’غوث الاعظم‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا۔ غوث کسے کہتے ہیں؟ غوث اولیا اللہ کا اعلیٰ ترین رتبہ ہے اور غوث الاعظم وہ ہستی ہے جو قدرتِ حق تعالیٰ کی عین مظہر ہو۔ اس کا ہر قول و فعل صفاتِ الٰہی کا مظہر ہوتا ہے اور اس خاص مقام و مرتبہ کے سبب وہ معرفتِ الٰہی کے تمام رازوں کا رازدان ہوتا ہے۔ پس وہ اسرارِ الٰہی کی تصویر بن جاتا ہے اور لوحِ محفوظ اس کے زیرِ فرمان ہوتی ہے۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اس بلند و بالادرجۂ غوثیت پر فائز ہیں جو کسی کو حاصل نہیں اور نہ ہی تاقیامت کسی کو حاصل ہو گا۔ بلاشبہ آپؓ ہی ’’غوث الاعظم‘‘ ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظم دستگیرؓ کی ذات حق تعالیٰ کا وہ روشن آفتاب ہے جس کی تابناکی سے تصوفِ حقیقی کو دوام ملا۔آپؓ کے ظہور سے قبل نفس پرست علما نے دینِ اسلام کو گمراہ کن فرقوں میں بانٹ دیا تھا۔ یعنی جسے دین کی محض چند باتوں کا علم ہوتا ہے وہ دین کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق لوگوں پر نافذ کرنا شروع ہو جاتا ہے۔ آپؓ نے اپنی کتب میں اس دور میں رائج تہتر (73) فرقوں کا ذکر کیا ہے جو تمام گمراہ تھے۔ ایسے گمراہ کن دور میں اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو امام الاولیا بنا کر بھیجا۔ پھر آپؓ کی ہی بدولت تمام تر باطل فرقے اور سلاسل دم توڑ گئے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے امانتِ فقر حاصل ہونے کے بعد امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ نے معرفت و تصوف کے باطنی سلاسل کا سلسلہ جاری فرمایا۔امام حسن بصریؓ سے چودہ سلاسل جاری ہوئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ نہ صرف کمزور ہو چکے تھے بلکہ بدعات سے آلودہ بھی ہو چکے تھے، غوث الاعظمؓ نے انہیں نئے سرے سے ترتیب دیا اور پھر آپؓ سے چارسلاسل جاری ہوئے، قادری ، چشتی، سہروردی اور نقشبندی یعنی آپؓ ان تمام سلاسل کے امام ہیں۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

آپؓ کا چہرہ مبارک ہی حقیقت میں اسمِ اعظم کا عین مظہر تھا۔جس کے فیض سے ہزاروں ،لاکھوں تاریک دل نورِ ایمان سے منور ہو جاتے تھے۔ آپؓ کی نگاہِ کرم جس پر بھی پڑتی ،خواہ وہ کافر ہوتا یا منافق، وہ نورِ ایمان سے سرفراز ہو جاتااور اگر ایمان والا ہوتا تو اس کے ایمان کی حلاوت میں مزید اضافہ ہو جاتااور وہ دیدارِ حق تعالیٰ کھلی آنکھوں سے کرنے لگتا۔آپؓ کی ولایت کا یہ خاص طرۂ امتیاز ہے کہ آپؓ کاہر وعظ حکمت و دانش کاایسا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا کہ جس کی تاثیر سے بہت سے لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی جس سے وہ مشاہدۂ حق میں غرق ہو جاتے۔
آپؓ کے فرزند شیخ عبد اللہ جیلانی ؒ کا بیان ہے ’’حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے مواعظِ حسنہ سے متاثر ہو کر ایک لاکھ سے زائد فاسق و فاجر اور بد اعتقادلوگوں نے آپؓ کے ہاتھ پر توبہ کی اور ہزارہا یہودی اور عیسائی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔‘‘
سیّدنا غوث الاعظمؓ نے خودایک موقع پر فرمایا ’’میری آرزو ہوتی ہے کہ ہمیشہ خلوت گزیں رہوں،دشت و بیابان میرا مسکن ہوں،نہ مخلوق مجھے دیکھے نہ میں اس کو دیکھوں۔لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی بھلائی منظور ہے۔ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد عیسائی اور یہودی مسلمان ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ بد کار اور فسق و فجور میں مبتلا لوگ توبہ کر چکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔‘‘ (حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ )

شیخِ ما

’’شیخِ ما‘‘فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ’’ہمارے مرشد‘‘ کے ہیں۔ اس اصطلاح کو سب سے پہلے سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے اپنی تصنیف رسالہ روحی شریف میں شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا بطور سلطان الفقر سوئم تعارف کرواتے ہوئے استعمال فرمایا اور پھر دیگر تصانیف میں بھی سیّدنا غوث الاعظم دستگیرؓ سے محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے تحریر فرمایا۔ جب بھی حضرت سلطان باھوؒ غوث الاعظمؓ کے لیے ’’شیخِ ما‘‘ یعنی ’’ہمارے شیخ‘‘ کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں تو ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ سیّدنا غوث الاعظم راہِ فقر و تصوف کے ہر سالک کے شیخ اور مرشد ہیں خواہ وہ کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہو۔ جیسا کہ ارشاد فرماتے ہیں:
* جس نے بھی غوثیت و قطبیت ودرویشی و فقیری و اولیائی و ولایت و ہدایت کی دولت و نعمت و سعادت پائی سیّدنا غوث الاعظمؓ کی بارگاہ سے پائی کیونکہ د ونوں جہان کی چابی آپؓ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جو آپؓ کا منکر ہوا وہ دونوں جہان میں مردود ہو کر ابلیس خبیث کی طرح پریشان ہوا۔ ہر مومن بندۂ خدا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی ہے یا اُمتی تھایا غوث و قطب ولی اللہ ہے سیّدنا غوث الاعظمؓ کا مرید ہے۔اُن میں سے کوئی بھی سیّدنا غوث الاعظمؓ کی مریدی سے باہر نہیں ۔جو اُنؓ کی مریدی سے انحراف کرتا ہے وہ معرفتِ مولیٰ تک ہر گز نہیں پہنچ سکتا، اس کے مراتب سلب ہو جاتے ہیں کیونکہ آپؓ کا خطاب ہی غوث الثقلین و غوث الجن و الانس و الملائکہ ہے۔(محک الفقر کلاں)
البتہ جب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کو صرف اپنے مرشد کے طور پر یاد فرماتے ہیں تو ’’پیر من‘‘ یعنی ’’میرے پیر‘‘ کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں جیسا کہ کلید التوحید کلاں کی مندرجہ ذیل فارسی عبارت میں ہے:
* پیر صاحبِ نظر باید چنانچہ پیر محی الدینؓ ’’پیرِ من‘‘ است کہ ہزاراں ہزار مریدان و طالبان را بایک نظر بعضی را غرق بہ معرفتاِ لَّا اللّٰہ و بعضی را مشرف حضوری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔

ترجمہ: پیر کو صاحبِ نظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانیؓ ہیں کہ ایک ہی نظر سے ہزاراں ہزار طالب مریدوں میں سے بعض کو معرفت اِ لَّا اللّٰہ میں غرق کرتے ہیں اور بعض کو مجلس محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کرتے ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)
اسی طرح دیگر کئی مقامات پر ’’پیرِ من‘‘ کی اصطلاح بھی حضور سیّدنا غوث الاعظمؓ کے لیے استعمال فرماتے ہیں۔ فارسی میں ’’ما‘‘ کے معنی ’’ہم یا ہمارے‘‘ کے ہیں اور ’’من‘‘ کے معنی ’’میں یا میرے‘‘ کے ہیں لہٰذا ’’شیخِ ما‘‘ سے مراد ہم سب کے شیخ ہیں۔
بلاشبہ غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ تمام حقیقی سلاسلِ طریقت اور ان کے سچے سالکین کے امام ہیں کیونکہ ان تمام سلاسل کے شیخ حضور غوث الاعظمؓ سے فیض یافتہ ہیں اور انہی کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں۔
چشتی سلسلہ کے بانی حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور سہروردی سلسلہ کے بانی حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ عین حیات میں سیّدنا غوث الاعظمؓ پیرانِ پیرکی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور فیض حاصل کر کے اپنے سلاسل کی بنیاد رکھی۔نقشبندیہ سلسلہ کے بانی حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ سیّدنا غوث الاعظمؓ کے وصال کے تقریباً سوا دو سو سال بعد پیدا ہوئے۔ حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت سیّد امیر کلال رحمتہ اللہ علیہ سے اسمِ ذات کا سبق حاصل کیا۔آپؒ لگاتار سولہ سال
اسمِ اللہ ذات قلب پر نقش کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک روز اس کوشش میں اتنے وارفتہ ہوئے کہ جنگل کی طرف نکل گئے اور وہاں حضرت خضر ؑ سے ملاقات ہو گئی۔ حضرت خضر ؑ نے پوچھا اے بہاؤالدین (رحمتہ اللہ علیہ) کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا قلب روشن نہیں ہورہا اس لیے بے حد پریشان ہوں۔انہوں نے کہاتصور اسمِ اللہ ذات کیا کرو۔ عرض کی کہ سولہ سال سے اسی کوشش میں ہوں مگر کامیابی نہیں ہو رہی۔حضرت خضر ؑ نے فرمایا جاؤ جا کر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے مزار پر عرض کرو کام بن جائے گا۔ چنانچہ بہاؤالدین رحمتہ اللہ علیہ نے مزارِ سیّدنا غوث الاعظمؓ پر حاضر ہو کرالتجا کی:

یا دستگیرؓ عالم دستم مرا بگیر
دستم چناں بگیر کہ گوئندت دستگیرؓ

ترجمہ: اے جہان بھر کی دستگیری کر نے والے میری بھی دستگیری فرمائیں ۔اس شان سے جس شان کے آپؓ دستگیر ہیں۔
اس پر سیّدنا غوث الاعظم سیّد عبد القادر جیلانیؓ نے اپنا دایاں ہاتھ مزار مبارک سے نکال کر اسمِ اللہ ذات کی شکل میں اُن کے سامنے فرمایا:

اے نقشبند عالم نقشم را بہ بند
نقشم چناں بہ بند کہ گوئندت نقشبند

ترجمہ:اے نقشبندِ عالم میرے والا نقش (اسمِ ذات)جما اور ایسا جما کہ رہتی دنیا تک لوگ تجھے نقشبندکے نام سے یاد کریں۔
اس کے ساتھ ہی حضرت بہاؤ الدین نقشبندؒ کے دل پر اسمِ ذات نقش ہو گیا اورآپؒ پکار اُٹھے۔

بادشاہ ہر دو عالم‘ شاہ عبدالقادرؓ است
سرورِ اولاد عالم‘ شاہ عبدالقادرؓ است
بر زمین و آسمان‘ جن و بشر ہم قدسیان
ساختہ وردِ زبان ہِم‘ شاہ عبدالقادرؓ است

ترجمہ:دو جہانوں،اولادِ آدم ،زمین و آسمان کے تمام انسانوں، جنوں، فرشتوں اور تمام مخلوق کے بادشاہ و رہنما حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ ہیں اور ہر ایک کی زبان پر آپؓ کا ہی ذکر ہے۔
اس لیے حضرت بہاؤ الدین نقشبندؒ کو بھی فیض سیّدنا غوث الاعظمؓ سے ملا۔بلکہ قیامت تک فیض تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی ملے گا لیکن سیّدنا غوث الاعظمؓ کے توسط سے۔ (حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ )
آپؓ کابحکمِ خدا یہ اعلان فرمانا:
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ۔(میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔)
اور اس فرمانِ مقدس کے جواب میں تمام اولیا کرام ؒ کا سرِ تسلیم خم کر دینا، آپؓ کے ’’شیخِ ما‘‘ ہونے کی دلیل ہے جسے تا قیامت رد نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اب تا قیامت حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانیَؓ کی اجازت و کرم کے بغیرکوئی بھی ولی، صوفی یا طالب نورِ فقر کو نہیں پا سکتا۔
سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے اپنے ایسے اقوال موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؓ تا قیامت اپنے مریدین کے دستگیر ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:
* اگر میرا مرید میرا نام لیوا مشرق میں ہو اور میں مغرب میں ہوں اور اس کا ستر کھل جائے تو میں اس کی ستر پوشی اپنے ہی مقام سے بیٹھے بیٹھے کر دوں گا اور تا قیامت میرے سلسلہ والے اگر ٹھوکر کھا کر گرنے لگیں گے تو میں انہیں سنبھالتا رہوں گا اور سہارا دیتا رہوں گا۔ (حیات و تعلیمات غوث الاعظمؓ)
اِنَّ یَدِیْ عَلٰی مُرِیْدِیْ کالسَّمَآءِ عَلَی الْاَرْضِ ۔
ترجمہ: بیشک میرا ہاتھ میرے مرید پر اس طرح سایہ فگن ہے جیسے کہ آسمان زمین پر۔
لَایَمُوْتُ مُرِیْدِیْ اِلَّا عَلَی الْاِیْمَانِ۔
ترجمہ: میرا مرید حالت ایمان میں ہی مرے گا۔
ان اقوال میں سیّدنا غوث الاعظمؓ کے مرید سے مراد تا قیامت آ نے والے تمام مریدین ہیں خصوصاً ان کے ذاتی سلسلہ سروری قادری کے سالکین۔

سلسلہ سروری قادری

سیّدنا غوث الاعظمؓ کا سلسلہ قادری آپؓ کے فرزند حضرت پیر سیّد عبد الرزاق جیلانی ؒ کے توسط سے سلطا ن العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ تک پہنچتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ کو سیّدنا غوث الاعظمؓ سے عشق تھااور آپؒ سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:
* عارف باللہ مظہر متبرکاتِ قدرتِ سبحانی، محبوبِ ربّانی پیر دستگیر حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز دورانِ حیات ہر روز پانچ ہزار مریدوں کو اس شان سے با مراد فرماتے رہے کہ تین ہزار کو مشاہدۂ نورِ واحدانیت اور معرفتِ اِ لَّا اللّٰہ‘‘میں غرق کر کے’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ ‘‘ (جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہوتا ہے۔ مقام فنا اللہ بقا باللہ)کے مرتبے پر پہنچاتے رہے اور دو ہزار کو مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حضوری سے مشرف فرماتے رہے۔ (شمس العارفین)
آپؒ مزید فرماتے ہیں:

باھُوؒ شد مریدش از غلامانِ بارگاہ
فیض فضلش می دہاند از اِلٰہ
باھُوؒ ! سگِ درگاہِ میراںؓ فخر تر
غوث و قطب زیر مرکب بار

ترجمہ: باھُوؒ اُنؓ کی بارگاہ کے غلاموں میں شامل ہو کر اُنؓ کا مرید ہو گیا اس لئے طالبانِ مولیٰ کو بارگاہِ الٰہی سے فیض و فضلِ ربی دلواتا ہے۔ اے باھُو ؒ درگاہِ میراںؓ کا کتا ہونا بھی بڑے فخر کی بات ہے کہ زمانے بھر کے غوث و قطب بھی حضرت میراںؓ کی سواری بننے پر فخر کرتے ہیں۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)
آپؒ سیّدنا غوث الاعظمؓ سے اپنے عشق و محبت کا اظہا ر پنجابی بیت میں یو ں فرماتے ہیں:

راتیں رتی نیندر نہ آوے، دِہاں رہے حیرانی ھُو
عارف دِی گل عارف جانے، کیا جانے نفسانی ھُو
کر عبادت پچھوتاسیں، تیری زایا گئی جوانی ھُو
حق حضور اُنہاں نوں حاصل باھُوؒ ، جنہاں ملیا شاہِ جیلانیؓ ھُو

ترجمہ:عشقِ محبوب میں رات کو نیند نہیں آتی اور دن بھی اسی طرح حیرانی و پریشانی میں گزر جاتا ہے۔ عارف کی بات کو عارف ہی سمجھ سکتا ہے اور یہ نفس پرست لوگوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔معرفتِ الٰہی کے حصول کی کوشش کر ورنہ دورِ جوانی گزرجانے کے بعد اس کے ضائع جانے پر تجھے پشیمانی ہو گی۔حضورِ حق تعالیٰ ( دیدارِ الٰہی ) تو ان کو حاصل ہوتا ہے جن کے مرشدحضرت غوث الاعظم سیّد عبد القادر جیلانیؓ ہوتے ہیں۔ (ابیاتِ باھُو کامل)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ سیّدنا غوث الاعظمؓ کے سلسلہ قادریہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* سن اگر تو عاقل ہے تو ہوشیار ہو جا،اگر غافل ہے تو غفلت کا پردہ اپنے کانوں سے ہٹا دے اور خبر دار ہو جا ،اگر عاقل ہے تو صاحبِ اعتبار ہو جا اور اگر کامل ہے تو اس حقیقت کو سو با ر و ہزار بار بلکہ ہمیشہ یاد رکھ کہ حضرت شیخ محّی الدین شاہ عبد القادر جیلانی قدس سرہُ العزیز کا طریقۂ قادری اسرارِ الٰہی کے خزانے بانٹنے والا اور ناقصوں کے وجود سے ریاضت کا بوجھ اتارنے والا طریقہ ہے۔ قادری طریقہ تیز دھار ننگی تلوار کی مانند ہے، جو شخص حضرت پیر دستگیر قدس سرہُ العزیز کے کسی طالب مرید سے دشمنی کا دم بھرتا ہے تو اس کا سر گردن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ اگر حضرت پیر دستگیر قدس سرہُ العزیز کی اولاد میں سے کوئی طالب مرید صالح ہو تو وہ آپؓ کی آستین میں رہتا ہے اور اگر طالح ہو توآپؓ اس کی آستین میں ہوتے ہیں، جب کوئی اُسے آزار پہنچاتا ہے تو حضرت پیر دستگیر قدس سرہُ العزیز آستین جھاڑکر اُسے سات پشتوں تک تباہ حال کر دیتے ہیں۔‘‘(نور الہدیٰ کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ سروری قادری ہیں اور آپؒ قادری سلسلہ کی دو شاخوں کا ذکر فرماتے ہیں۔سروری قادری اور زاہدی قادری۔
سروری قادری اور زاہدی قادری کسے کہتے ہیں؟
*سروری قادری مرشد صاحبِ اسمِ اللہ ذات ہوتا ہے اس لیے وہ جس طالبِ اللہ کو حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کی تعلیم و تلقین سے نوازتا ہے تو اُسے پہلے ہی روز اپنا ہم مرتبہ بنا دیتا ہے جس سے طالبِ اللہ اتنا لا یحتاج و بے نیاز مُتَوَکَّلْ اِ لَی اللّٰہ ہو جاتا ہے کہ اُس کی نظر میں مٹی و سونا برابر ہو جاتا ہے۔زاہدی قادری طریقہ کا طالب بارہ سال تک ایسی ریاضت کرتا ہے کہ اُس کے پیٹ میں طعام تک نہیں جاتا، بارہ سال کی ریاضت کے بعد حضرت پیر صاحب (محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز) اس کی دستگیری فرماتے ہیں اور اُسے سالک مجذوب یا مجذوب سالک بنا دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں سروری قادری طالب کا مرتبہ محبوبیت کا مرتبہ ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
آپؒ سروری قادری کی مزید شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* سروری قادری اسے کہتے ہیں جسے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دستِ بیعت فرماتے ہیں اور اس کے وجود سے بد خلقی کی بو ختم ہو جاتی ہے اور اُسے شرعِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق مل جاتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* ایک اس مراتب کے بھی سروری قادری ہوتے ہیں جنہیں خاتم النبیین رسولِ ربّ العالمین سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی مہربانی سے نواز کر باطن میں حضرت محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیزکے سپرد کر دیں اور حضرت پیر دستگیرؓ بھی اُسے اس طرح نوازتے ہیں کہ اُسے خود سے جدا نہیں ہونے دیتے۔(محک الفقر کلاں)
اس قول سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیّدنا غوث الاعظمؓ آج بھی اپنے مریدین کو نواز رہے ہیں اور انہیں خود سے جدا نہیں ہونے دیتے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* سلسلہ سروری قادری ہی اصل قادری سلسلہ ہے جس میں اب تک پیر دستگیر سیّدنا غوث الاعظمؓ کا فیض جاری ہے اور چونکہ سیّدناغوث الاعظمؓ قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہیں اسی لیے سروری قادری بھی قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اسی طریق پر ہے۔ (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے متعلق فرماتے ہیں:
* سروری قادری سلسلہ معرفت کا سمندر ہے جو اس سلسلہ میں داخل ہوتا ہے وہ اسمِ اللہ ذات میں غوطہ لگاتا ہے اور عارف ہو جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

سیّدنا غوث الاعظمؓ اور آپؓ کےسلسلہ قادری کے منکر

سیّدنا غوث الاعظمؓ اور سلسلہ قادری کے دشمن کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
* جو غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا منکر ہے وہ بے دین، بد مذہب اور پریشان حال ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
* طریقہ قادری کا دشمن تین حکمت سے خالی نہیں ہوتا اوّل رافضی و خارجی دوم ناقص و کاذب سوم مردود و منافق۔ (نور الہدیٰ کلاں)
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی باطنی اجازت کے بغیر جو کوئی بھی مخلوقِ خدا کو تلقین و ارشاد کرتا ہے ایسا شخص حقیقت میں شیطان کا چیلا ہوتا ہے اور اس کی تلقین بھی نفسانی،حیوانی اور شیطانی ہی ہوتی ہے چاہے وہ جتنا مرضی الفاظ کو نکھار نکھار کر بولے آخر میں لبِ لباب شیطانی علم ہی نکلتا ہے۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اعلیٰ منصب ولایت منصب اور لامحدود روحانی مقام کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:

اَفَلَتْ  شُمُوْسُ  الْاَوَّلِیْنَ  وَ شَمْسُنَا

اَبَدًا عَلٰی فَلَکِ الْعُلٰی لَا تَغْرُبٗ 

ترجمہ:پہلے لوگوں کے آفتاب ڈوب گئے لیکن ہمارا آفتاب بلندیوں کے آسمان پر کبھی غروب نہ ہوگا۔
آفتاب سے مراد فیضانِ ہدایت و ارشاد ہے اور غروب ہونے سے مراد اس فیض کا بند ہونا ہے جو کبھی نہ ہو گا۔
بلاشبہ آپؓ کا یہ فرمان آج کے نفس پرست دور میں بھی حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہا ہے۔آپؓ کا آفتاب (فیض مراد تعلیماتِ فقر) آپؓ کے روحانی وارث اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل، آفتابِ فقر محبوبِ ربانی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الر حمن مدظلہ الاقدس کے توسط سے آج بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور انشاء اللہ بفضلِ کرم سیّدنا غوث الاعظمؓ اور آپ مدظلہ الاقدس کی دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فروغ کے لیے کی گئی کاوشوں کی بدولت تا قیامت یہ آفتاب اپنی نورانی و پاکیزہ روشنی سے بے نور قلوب کو نورِ الٰہی سے منور فرماتا رہے گا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الر حمن مدظلہ الاقدس اس وقت کرۂ ارض پر وہ واحد ہستی ہیں جنہوں نے دینِ محمدی کو حقیقی معانی میں حیاتِ نو عطا فرمائی اور اللہ کے فضل و کرم سے فقر ِ محمدی کے فیض کو دنیا بھر کے ہر خاص و عام طالب پر برسا رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی دینِ محمدی کے فروغ کے لیے کی گئی بے لوث کاوشوں کے اعتراف کے طور پرآپ مدظلہ الاقدس کو بارگاہِ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ’’شبیہ غوث الاعظم‘‘ کا لقب عطا کیا گیا جو آپ مدظلہ الاقدس کے سیّدنا غوث الاعظمؓ کے حقیقی روحانی وارث ہونے کی کامل دلیل ہے۔
عرش والوں کے گھر چراغاں ہے سارے عالم پہ نور چھایا ہے
بن کے آفتابِ فقر دنیا میں سلطان نجیب آیا ہے


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں