مرشد کامل معرفتِ الٰہی کا واحد ذریعہ–Murshid Kamil  


3.2/5 - (4 votes)

مرشد کامل معرفتِ الٰہی کا واحد ذریعہ

 

فائزہ سعید سروری قادری (سویٹزر لینڈ)

وسیلۂ مرشد

جس طرح کسی بھی علم یا ہنر کو سیکھنے کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے اورجس طرح کوئی بھی کام کسی وسیلہ کے بغیر انجام نہیں پا سکتا اس طرح اللہ پاک کی معرفت کا حصول، جوکہ انسان کا مقصدِ حیات ہے، وہ کسی وسیلہ کے بغیر کس طرح ممکن ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ترجمہ:’’روزِ قیامت ہر شخص اپنے امام (پیشوا، مرشد) کے ساتھ پکارا جائے گا‘‘ اور جس کا کوئی مرشد نہ ہوگا وہ شیطان کے ساتھ پکارا جائے گا کیونکہ حدیث پاک میں فرمایا گیا ’’جس کا مرشد نہیں‘ اس کا مرشد شیطان ہے‘‘۔ مرشد و رہنما کی غیر موجودگی میں شیطان کے لیے انسان کو بہکانا آسان ہوتا ہے۔ 
سورۃ المائدہ آیت 35 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

  یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃ

   ترجمہ:’’اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو‘‘۔
تو یہ وسیلہ اور کوئی نہیں صرف اور صرف مرشد کامل کی ذات ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

سَے روزے سَے نفل نمازاں‘ سَے سجدے کر کر تھکے ھُو
سَے واری مکے حج گزارن‘ دل دی دوڑ نہ مکے ھُو
چلّے چلیے جنگل بھونا‘ اس گل تھیں نال پکے ھُو
سب مطلب حاصل ہوندے باھُوؒ ،جد پیر نظر اک تکے ھُو

مفہوم:میں نے معرفتِ الٰہی کے حصول کے لیے ہزاروں نوافل اداکیے، سینکڑوں مرتبہ سجدہ میں سر رکھ کر التجا کی، حج ادا کیے، چلہ کشی میں مصروف رہا، جنگل جنگل، کوچہ کوچہ کی خاک چھانی لیکن ناکام رہا لیکن جیسے ہی میرے مرشد کامل نے ایک نگاہِ فیض مجھ پر ڈالی تو میں نے اپنی منزلِ حیات کو پا لیا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ مرشد کی مثال ایک دھوبی کی دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 

کامل مرشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھُو

یعنی مرشد کامل طالب کے باطن کی میل کو رگڑ رگڑ کر صاف کرتا ہے اور اس کو پاک صاف کر کے اللہ کی بارگاہ میں حضوری کے لائق بنا دیتا ہے، یا پھر ایک جوہری کی طرح طالب کے باطن کو چمکا دیتا ہے اور وہ بغیر کسی محنت و ریاضت کے اپنے ہی باطن میں اللہ پاک کا دیدار کرتا ہے۔ مرشد کامل اس سنگِ پارس کی مانند ہوتا ہے جو اگر پتھر کو چھو لے تو اسے سونا بنا دے۔ اس کی نظر آفتاب کی طرح فیض بخش ہوتی ہے جو طالب کے وجود سے خصائلِ بد کو مٹا دیتی ہے۔ مرشد درخت کی مانند ہوتا ہے جو خود دھوپ کی گرمی برداشت کرتا ہے اور اپنے سائے میں آرام کرنے والوں کو راحت بخشتا ہے۔ مرشد اللہ کی صفتِ مُحی سے قلوب کو زندہ کرتا ہے اور صفتِ مُمیت سے نفس کو مار دیتا ہے۔
مرشد کامل طالب کو مقامِ منفرد تک پہنچا دیتا ہے۔ مقامِ منفرد وہ مقام ہے جہاں نورِ محمدی نورِ الٰہی سے جدا ہوا تھا یعنی مقامِ ھاھُویت۔ پس استقامت اور کامل خلوص سے مرشد کی پیروی و اطاعت کرنے والوں کو مرشد ازل سے ابد تک کے تمام مقامات طے کروا کر واپس ازل کے انتہائی مقامِ ھاھُویت تک پہنچا دیتا ہے۔
جب اللہ کا طالب فقر کی انتہائی حدود کو بھی پار کر لیتا ہے تو اس کا اپنا وجود فنا ہو جاتا ہے اور وہ جملہ صفاتِ الٰہیہ اور قوائے الٰہیہ سے متصف ہو کرانسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان   اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ ترجمہ:’’فقر نہ تو اپنے ربّ سے کوئی حاجت رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے غیر سے‘‘کے مطابق لایحتاج ہو جاتا ہے۔ مرشد کامل کے اسی مقامِ لایحتاج کی شرح بیان کرتے ہوئے حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’فنا فی اللہ فقیر (مرشد کامل) اُسے کہتے ہیں جو توحیدِ حق میں اس قدر غرق ہو کہ اسے اللہ کی بھی حاجت نہ ہو کہ اللہ کی حاجت اسے ہوتی ہے جو اس سے جدا ہو اور وہ تو اللہ کے ساتھ یکتا اور یک وجود ہوتا ہے‘‘ (عین الفقر)۔ اس کو تمام مخلوق پر اختیار حاصل ہو جاتا ہے اور تمام صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہونے کے باعث اسے اس قدر قوت اور تصرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ صادق طالبانِ مولیٰ کو بغیر کسی مشکل کے اللہ پاک تک پہنچا دیتا ہے ۔ معرفتِ الٰہی کے لیے اس کی صحبت، قربت اور کرم کی ایک نظر ہی کافی ہے جیسا کہ رسالہ روحی شریف میں حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 

* سراسر نظر ایشاں نورِوحدت وکیمیائے عزت بہرکس پر توءِ عنقائے ایشاں افتاد نورِ مطلق ساختند احتیائے بریاضت و ورد اورادِ ظاہری طالبان را نہ پرداختند ترجمہ:’’ان کی ایک نظر سراسر نورِ وحدت اور کیمیائے عزت ہے، جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کرنے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری ورد و ظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے‘‘۔ (رسالہ روحی شریف)
لہٰذا مرشد کامل کی صرف توجہ ہی خلقت کے دلوں کو بدلنے کے لیے کافی ہے اگر وہ اس کا ارادہ فرما لے لیکن فرمانِ حق تعالیٰ ترجمہ:’’اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو‘‘ کے مطابق وہ اپنی توجہ کا کرم صرف ان طالبانِ مولیٰ پر کرتا ہے جو اس توجہ کے طالب ہوتے ہیں اور اس کے فیضِ کرم سے اپنی باطنی حالت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے بغداد سے باہر ویران برج میں کئی سال چلہ کشی کی۔ آخری چلہ کشی کے دوران عہد کیا کہ جب تک اللہ خود مجھے نہیں کھلائے گانہیں کھاؤں گا اور پھر چالیس دن تک کچھ نہ کھایا۔ آخر کار شہر بغداد کے مشہور صاحبِ طریقت بزرگ قاضی القضاء شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور اپنے دستِ مبارک سے انہیں کھانا کھلایا۔ سیّدنا غوث پاک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’شیخ کے ہاتھ سے جولقمہ میرے منہ میں جاتا تھا اس سے میرے دل میں نورِ بصیرت پیداہوتا تھا‘‘۔ یعنی کئی سال کی چلہ کشی کا وہ اثر نہ ہوا جو شیخ کی ایک مہربانی سے ہوا۔
’’عین الفقر‘‘ میں حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
* مرشد توفیقِ الٰہی کا نام ہے۔ جب تک توفیقِ الٰہی شاملِ حال نہ ہو کوئی کام تکمیل نہیں پاتا۔ مرشد کامل کے بغیر اگر تُو ساری زندگی اپنا سر ریاضت کے پتھر سے ٹکراتا رہے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا کہ بے پیرو مرشد کوئی شخص اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
* تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ راز (مرشد کامل) کے سینے میں ہے کیونکہ قدرتِ توحید اور دریائے وحدتِ الٰہی مومن کے دل میں سمائی ہوئی ہے۔ اس لیے جو شخص حق حاصل کرنا چاہتا ہے اور واصل باللہ ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ سب سے پہلے مرشد کامل اکمل کی طلب کرے اس لیے کہ مرشدِ کامل اکمل دلوں کے خزانوں کا مالک ہے۔ جو شخص اپنے دل کا محرم ہو جاتا ہے وہ دیدارِ الٰہی کی نعمت سے محروم نہیں رہتا۔ (عین الفقر)
میرے پیر و مرشد حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’آج تک کسی ولی کامل کو معرفتِ الٰہی، ولایت اور مشاہدۂ حق تعالیٰ مرشد کامل اکمل کی بیعت اور تربیت کے بغیر حاصل نہیں ہوا۔ امام غزالیؒ درس و تدریس کا سلسلہ ترک کر کے حضرت یوسف نساجؒ کی غلامی اختیار نہ کرتے تو آج ان کا شہرہ نہ ہوتا۔ مولانا رومؒ اگر شاہ شمس تبریزؒ کی غلامی میں نہ آتے تو ان کو یہ مقام ہرگز نہ ملتا اور علامہ اقبالؒ کو اگر مولانا رومؒ سے روحانی فیض نہ ملتا تو وہ گل و بلبل کی شاعری میں ہی الجھ کررہ جاتے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ قصہ مختصر کہ فقر و طریقت کی راہ میں آج تک کوئی بھی مرشد کی رہنمائی اور بیعت کے بغیر اللہ تک نہیں پہنچا‘‘۔ (شمس الفقرا)
اب سوال یہ ہے کہ مرشد کس مقام و مرتبہ کا حامل ہونا چاہیے؟

مقامِ مرشد

سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق مرشد کامل اکمل وہ عبد ہے جو ابد کی تمام منازل طے کر کے ازل کی طرف لوٹ چکا ہو۔ ازل مقامِ ھاھویت ہے جہاں صرف اور صرف اللہ کی ذات پاک ہے اور کچھ بھی نہیں ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کَانَ اللّٰہُ وَ لَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ شَیْئٌ ترجمہ:’’اللہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی‘‘۔ اسی مقام پر فائز اولیاء کاملین کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:

اگر آنہارا خدا خوانی بجا و اگر بندہءِ خدا دانی روا
ترجمہ:اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا کہا جائے تو بھی روا ہے۔ (رسالہ روحی شریف)
کامل مرشد وہ ہے جو فقر کی تمام منازل و مقامات سے گزرا ہو، اس راستے کے تمام اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز سے واقف ہو اور جس نے فقر کو حاصل کر لیا ہو اور فقر عین ذات پاک ہے۔ وَاِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ   یعنی جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے اور کامل مرشد پر فقر مکمل ہو چکا ہوتا ہے۔

آپؒ مزید فرماتے ہیں:

چار بودم سہ شدم اکنوں دویم
و ز دوئی بہ گزشتم و یکتا شدم

ترجمہ:پہلے میں چار تھا، پھر تین ہوا پھر دو اور جب دوئی سے بھی نکل گیا تو یکتا بخدا ہو گیا۔ یعنی پہلے میری ذات، مرشد کامل، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اللہ کی ذات مجھے علیحدہ علیحدہ دکھائی دیتی تھیں۔ مرشد کامل کی مہربانی سے پہلے میں فنا فی الشیخ کے مقام تک پہنچا پھر فنا فی اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور پھر فنا فی اللہ بقا باللہ تک پہنچا تو پھر صرف ایک ہی ذات رہ گئی۔ 
یعنی مرشد ہی ذریعہ، واسطہ اور وسیلہ ہے اللہ پاک کی معرفت اور قرب و وصال کا، کیونکہ جب تک طالب فنا فی الشیخ نہ ہو فنا فی اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور فنا فی اللہ ہو کر قربِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قربِ الٰہی نہیں پا سکتا۔ لیکن کوئی عام مرشد نہیں بلکہ مرشد کامل اکمل جو خود فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام سے بھی آگے گزر کر مقامِ ھاھُویت پر فائز و متمکن ہو اور جامع نور الہدیٰ یعنی اللہ کے تمام انوار کا جامع ہو۔ وہی مرشد معرفتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
* حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مرشد کامل کی شان بیان کرتے ہوئے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہٗ سے فرماتے ہیں’’جس نے عقیدت بھری نظروں سے انکی طرف دیکھا تو اللہ کو یہ بات اللہ کی طرف دیکھنے سے زیادہ پسند ہے۔ جس نے ان کی طرف دیکھا گویا اس نے اللہ کو دیکھا، جس نے انہیں لباس پہنایا گویا اس نے اللہ کو لباس پہنایا، جس نے انہیں کھانا کھلایا گویا اس نے اللہ کو کھانا کھلایا۔ اے ابوذرؓ! وہ گناہ گار جو گناہ کرنے پر بضد ہوں اور بے حد گناہ گار ہوں، ان کی محفل میں آکر بیٹھیں تو اٹھنے سے پہلے انکے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ پس تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کبھی خواب میں اور کبھی بیداری میں اسرارِ ملکوت کا مشاہدہ اورمکاشفہ کرتے ہیں اور ان پر مشاہدہ کی صورت میں اسرارِ ربانی کے معنی منکشف ہوتے رہتے ہیں اور یہ حالت عالی درجات میں سے ہے اور یہ درجاتِ نبوت میں سے ہے۔ پس تم انکے معاملے میں ڈرنا، اگر تم اس بارے میں غلطی کروگے تو تمہارے قصور کی حد تجاوز کر جائے گی اور تم ہلاکت میں پڑجاؤ گے۔ اس عقل سے جہالت بہتر ہے جو انکے انکار کی طرف راغب کرے کیونکہ ان امور سے جس نے انکار کیا گویا اس نے انبیاء کا انکار کیا اوروہ دین سے مکمل طور پر نکل گیا۔‘‘ (عین الفقر)
رسالۃ الغوثیہ میں فقیرِ کامل کے متعلق اللہ تعالیٰ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے فرماتا ہے ’’فقیر وہ نہیں جس کے پاس کچھ نہیں بلکہ فقیر وہ ہے جو کُن کہے اور فیکون ہو جائے‘‘۔ پس مرشد کامل کی زبان کُن کا درجہ رکھتی ہے، اگر وہ چاہے تو لوحِ محفوظ پر لکھے ہوئے مخلوق کے ازلی نصیب کو بدل کر رکھ دے لیکن چونکہ وہ مقامِ رضا پر ہے اس لیے اپنے لازوال اور لامحدود تصرف و اختیار کو صرف طالبانِ مولیٰ کو ذاتِ حق تعالیٰ کے قرب تک پہنچانے کے لیے استعمال میں لاتا ہے۔

معرفتِ مرشد

اب سوال یہ ہے کہ مرشد کی پہچان اور معرفت کس طرح ممکن ہے؟
مرشد کامل کی شان عبدہٗ کی ہے یعنی اس کا ظاہر عبد کا ہے اور باطن ’ھُو‘ کا ہے۔ ظاہری زندگی وہ ایک عام انسان کی طرح بسر کرتا ہے اور اپنی حقیقت ظاہری نظر سے دیکھنے والوں میں سے کسی پر بھی ظاہر نہیں کرتا البتہ جن کی باطنی آنکھ روحانی زندگی کے حصول کے بعد کھل چکی ہوتی ہے وہ کسی حد تک اس کی حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں۔ جو قرب و معرفتِ الٰہی کے جس مقام پر ہوتا ہے اسی قدر اسے معرفتِ مرشد بھی حاصل ہوتی ہے۔
فقیرِ کامل ظاہری طور پر ایک عام انسان کی طرح زندگی اس لیے گزارتا ہے تاکہ عام انسان فقر کی راہ اختیار کرتے ہوئے یہ ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں کہ یہ راہ تو ولیوں اور پیغمبروں کی راہ ہے اور عام انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے اللہ پاک فقیرِ کامل کی بشریت کو قائم رکھتا ہے تاکہ عام انسان اس سے انس محسوس کریں اور اس کی پیروی آسانی سے کر سکیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بشر کی صورت میں پیدا فرمایا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے مقامِ ’ھُو‘ پر تھے۔
لہٰذا مرشد کامل اکمل کی پہچان ادراکِ قلبی سے ممکن ہے ظاہری آنکھوں سے مرشد کامل اکمل کے مقام و مرتبہ کو پہچاننا ممکن نہیں۔
حاصل تحریر یہ کہ حیاتِ قلب اور معرفتِ حق تعالیٰ کے لیے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی تلاش اور صحبت ہم سب پر فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ایسے ہی کامل واکمل مرشد کی ذات کو پہچاننے اور اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اپنا تبصرہ بھیجیں