فیضِ غوثِ الاعظم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ–Faiz Ghous-ul-Azam


Rate this post

فیضِ غوثِ الاعظم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ

تحریر: عرشیہ خان سروری قادری۔ لاہور

بابِ نبوت ہمیشہ کیلئے بند ہو جانے کے بعد فیضِ الٰہی کی ترسیل و اجرا کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب فقرا کاملین کا سلسلہ جاری فرمادیا۔ یہ فقرا کاملین درِ مصطفی ؐ کی خیرات عوام الناس میں تقسیم کرنے اور انہیں اللہ کی بارگاہ کا راستہ دکھانے پر متعین ہیں ان سے فیض حاصل کرنا حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔

 وَاصْبَرِ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَوٰۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ صلے وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْھُمَ ۔ (الکہف۔28)

ترجمہ: ( اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اس کی رضا کے طلبگار رہے ہیں اور تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔
یہ آیت مبارکہ فقرا کاملین کی جانب اشارہ کرتی ہے اور فقرا کاملین میں سب سے اعلیٰ درجہ سیّد الکونین سلطان الفقر، محبوبِ سبحانی ، قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی سیّدنا غوث الاعظم محی الدین حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا ہے جو نہ صرف دونوں جہانوں کے لیے رحمت کا باعث ہیں بلکہ ان پر کامل تصرف رکھتے ہیں اور آپؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وزیر و نائب ہیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سیّدنا غوث الاعظمؓ غوثیت کے اعلیٰ و بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں جہاں فقر میں کسی کے لیے اس مقام تک پہنچنا ناممکن ہے۔ اس لیے آپؓ کا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔ آپؓ کا فیض اس پوری کائنات میں جاری و ساری ہے۔ آپؓ کے درجہ فضیلت کی تصدیق و تائید تمام اولیا کرام، علما ئے حق اور مشائخ نے کی۔ آپؓ کی ذات کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ہے۔ آپؓ دنیائے ظاہر وباطن اور عالم غیب و شہادت میں آفتابِ عالم تاب سے زیادہ مشہور اور معروف ہیں۔ آپؓ کے مناقب آسمان کے ستاروں اور ریت کے ذرّوں سے بھی زیادہ ہیں۔
فقرِ محمدی جس طور پر آپؓ میں ظاہر ہو ا کسی اور ولی یا فقیر میں ظاہر نہ ہوا اور نہ ہوگا۔ آپؓ کا وجود مبارک شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے چار عناصر کا اسی طرح کامل مرکب تھا جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پاک ذات ہے یہی وجہ ہے کہ آپؓ کو ہر ولی اور فقرا کاملین پر فوقیت حاصل ہے اور اللہ پاک نے مسلم اُمہ کو صراطِ مستقیم کا راستہ اور فیض عام کرنے کیلئے آپؓ کو منتخب فرمایا۔ سیّدنا غوث الاعظمؓ ہی وہ عارفِ کامل ہیں جنہوں نے روحانی اور نورانی تعلیمات و کاوشوں سے تاریک دلوں کو منور فرمایا۔
ایک مرتبہ سیّدنا غوث ا لاعظمؓ سے کسی نے پوچھا ’’آپ محیّ الدین کے لقب سے کیسے مشہور ہوئے؟‘‘ آپؓ نے جواب میں اپنا ایک عجیب مکاشفہ بیان فرمایا:
’’ایک دن میں بغداد سے باہر گیاہوا تھا۔ واپس آیا تو راستے میں ایک بیمار اور خستہ حال شخص کو دیکھا جو ضعف و لاغری کے سبب چلنے سے عاجز تھا۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا ’’اے شیخ! مجھ پر اپنی توجہ کر اور اپنے دمِ مسیحا نفس سے مجھے قوت عطا کر۔‘‘ میں نے بارگاہِ ربّ العزت میں اس کی صحت یابی کے لئے دعا مانگی اور پھر اس پر دم کیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس شخص کی لاغری اور نقاہت یک دم دور ہو گئی اور وہ تندرست و توانا ہوکر اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا ’’اے عبدالقادرؓ مجھے پہچانا؟‘‘ میں نے کہا’’نہیں‘‘ وہ بولا’’میں تمہارے نانا کا دین ہوں اور ضعف کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے۔اب اللہ تعالیٰ نے تیرے ذریعے سے مجھے حیاتِ تازہ عطا کی ہے تو’’ محیّ الدین ‘‘ ہے اوراسلام کا مصلحِ اعظم ہے۔‘‘
میں اس شخص کو چھوڑ کر بغدادکی جامع مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں ایک شخص ننگے پاؤں بھاگتا ہوا میرے پاس سے گزرا اور بلند آواز سے پکارا’’سیّدی محیّ الدین‘‘۔ میں حیران رہ گیا پھر میں نے مسجد میں جا کر نفل ادا کیے جونہی میں نے سلام پھیرا میرے چاروں طرف لوگ انبوہ در انبوہ جمع ہوگئے اور محیّ الدین‘ محیّ الدین کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے۔ اس سے پہلے کبھی کسی نے مجھے اس لقب سے نہیں پکارا تھا۔‘‘ (اقتباس از ’حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ‘)
اس واقعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اللہ عزّوجل نے آپ کی ذاتِ اقدس کو ولایتِ عظمیٰ کے منصب کیلئے پہلے ہی چن لیا تھا چنانچہ اسی مقصد کے تحت آپ کی خاص تربیت فرمائی گئی۔ 488 ھ میں جب سیّدنا غوث الاعظمؓ بغداد تشریف لائے اس وقت دنیائے اسلام طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ یہی وقت تھا جب سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ صلاح و تقویٰ سے آراستہ مزاجِ شریعت سے آشنا اور کتاب و سنت کے علوم سے مسلح ہو کر میدانِ جہاد میں تشریف لائے اور تلقین و ارشاد کے ذریعے باطل کیخلاف جنگ کاآغاز کیا۔ انہی کاوشوں کو مدِ نظر رکھ کر آپؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود ’’محی الدین‘‘ کے عظیم لقب سے سرفراز فرمایا اور حقیقتاً آپؓ اس عظیم لقب کے حقدار بھی ہیں کہ ’’محی الدین‘‘ کے معنی ہیں ’’دین کو زندہ کرنے والا‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت دینِ اسلام‘ جو دم توڑ چکا تھا آپؓ کے بابرکت وجود اور فیض سے دوبارہ زندہ ہوگیا۔
مسندِ تلقین و ارشاد پر جلوہ افروز ہونے سے قبل رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبدالقادر! تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کیلئے وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے ؟‘‘
آپؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں ایک عجمی ہوں عرب کے فصحا کے سامنے کیسے بولوں؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا’’اپنا منہ کھولو۔‘‘
آپؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل کی۔ سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا لعابِ دہن سات بار آپؓ کے منہ میں ڈالا اور پھر حکم فرمایا:’’جاؤ قوم کی وعظ و نصیحت کرو اور ان کو اللہ کے راستے کی طرف بلاؤ۔‘‘
خواب سے بیدار ہو کر آپؓ نے ظہر کی نماز ادا کی اور وعظ کیلئے تشریف فرما ہوئے۔ اس وقت لوگوں کی کثیر تعداد آپؓ کے گرد جمع ہوگئی۔ آپؓ کچھ جھجکے لیکن یکایک کشفی حالت طاری ہوئی اور آپؓ نے دیکھا کہ بابِ فقر سیّد نا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ آپؓ کے سامنے کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں۔ ’’وعظ شروع کیوں نہیں کرتے؟‘‘ آپؓ نے عرض کیا ’’اباجان گھبرا گیا ہوں۔‘‘
شیرِ خدا نے فرمایا ’’اپنا منہ کھولو۔‘‘
حضرت علیؓ نے اپنا لعابِ دہن چھ بار آپؓ کے منہ میں ڈالا۔
آپؓ نے عرض کیا ’’یاحضرت! آپ نے سات مرتبہ اپنے لعابِ دہن سے مجھے کیوں نہیں مشرف فرمایا؟‘‘
’’شیرِ خداؓ نے فرمایا: یہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پاسِ ادب ہے ‘‘۔ یہ فرما کر حضرت علی ؒ تشریف لے گئے اور سیّدنا غوث الاعظمؓ نے وعظ کاآغاز فرمایا۔ لوگ آپؓ کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر دنگ رہ گئے اور بڑے بڑے فقہا کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ (اقتباس از ’’حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ‘‘)
سیّدنا غوث الاعظمؓ کا وعظ حکمت و دانش کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا تھا۔ آپؓ کے خطبات میں سے یوں فیض نچھاور ہوتا تھا جیسے آسمان سے بارش۔ آپؓ کی گفتگو سالک پر اتنا گہرا اثر رکھتی تھی کہ وہ محو ہو جاتا اور اس پُر نور شخصیت اور اندازِ گفتگو کی وجہ سے آپؓ کا ہی ہو کر رہ جاتا۔ اس تاثیر کا یہ عالم ہوتا تھا کہ لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بعض لوگ جوش میں آکر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالتے، بعض بے ہوش ہو جاتے، کئی مرتبہ یوں بھی ہوا کہ مجلسِ وعظ میں کچھ افراد غشی کی حالت طاری ہونے کے بعد واصل بحق ہو گئے۔ اکثر اوقات غیر مسلم بھی آپؓ کی مجالسِ وعظ میں شرکت کرنے آتے آپؓ کا وعظ سن کر انہیں کلمہ شہادت پڑھ لینے کے سوا کو ئی چارہ نہ رہتا۔ جو گمراہ و فاسق ایک بار آپؓ کاوعظ سن لیتا صراطِ مستقیم اختیار کر لیتا۔ مشہور ہے کہ آپؓ کی مجلسِ وعظ کی اثر انگیزی سے ان کے لباس اور ٹوپیاں شعلہ فروزاں بن جاتیں اور شد تِ جذبات سے ان میں اضطراب بپا ہو جاتا۔
آپؓ کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ وعظ کسی کی مجال نہ تھی کہ بات کرے اور ادھر اُدھر اٹھ کر جائے۔ اس دور کے اکثر نامور مشائخ آپؓ کی مجالسِ وعظ میں شریک ہوتے تھے۔ ان مجالسِ وعظ میں آپؓ سے بکثرت کرامات ظاہر ہوتیں۔ آپؓ رسو لِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نائب اور عارف کامل جامع نورالہدیٰ تھے اس لیے ہر وعظ سامعین کے حالات و ضروریات کے مطابق ہوتا تھا۔
سیّد نا غوث الاعظمؓ نے خود ایک موقع پر فرمایا:
ترجمہ: ’’میری آرزو ہوتی ہے کہ ہمیشہ خلوت گزیں رہوں،دشت و بیاباں میرا مسکن ہوں، نہ مخلوق مجھے دیکھے نہ میں اسکو دیکھوں لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی بھلائی منظور ہے۔ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد عیسائی اور یہودی مسلمان ہوچکے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ بدکار اور فسق و فجور میں مبتلا لوگ توبہ کر چکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔‘‘ایک دفعہ آپؓ کی مجلسِ وعظ میں عرب کے عیسائیوں نے اسلام قبول کیا ور پھر بیان کیا کہ کچھ عرصہ سے اسلام کی طرف مائل تھے لیکن کسی مردِ حق کی جستجو میں تھے جو ہمارے قلوب کی سیاہی بالکل دھو ڈالے۔ ایک دن ہمیں غیب سے آواز آئی ’’ تم لوگ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے پاس بغداد جاؤ وہ تمہیں مشرف بہ اسلام کر کے تمہارے سینوں میں نورِ ایمان بھر دیں گے۔‘‘
سیّدنا غوث الاعظمؓ کا فیضِ روحانی لامحدود ہے اس کے بارے میں آپؓ کا فرمان ہے:

اَفَلَتْ شَمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ وَشَمْسَنَا اَبَدًا عَلٰی فَلَکِ الْعُلٰی لَا تَغربْ

ترجمہ: پہلوں کے آفتاب ڈوب گئے لیکن ہماراآفتاب بلندیوں کے آسمان پر کبھی غروب نہ ہو گا۔
آفتاب سے مراد فیضانِ ہدایت و ارشاد ہے اور غروب ہونے سے مراد اس فیض کا بند ہونا ہے یعنی سیّدنا غوث الاعظمؓ کا فیض کبھی بھی بند نہ ہوگا۔
آپؓ نے اپنے عظیم کارناموں کے سبب لوگوں میں عشقِ الٰہی کی روح پھونک دی، آپ نے جہاں توحیدِ ربانی کا سبق عام کیا وہیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لوگوں کے دلوں کو منور فرمایا۔ آپؓ نے فیض عام کر کے لوگوں میں آخرت کی فکر اور اللہ سے روحانی تعلق مضبوط کرنے کا درس دیا اور انہیں معرفتِ الٰہی سے روشناس فرمایا اور تمام عالمِ اسلام میں اپنے فیوض و برکات جاری فرمائیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ اور دیگر اولیا کرام کا بھی یہی ماننا ہے کہ جہاں کہیں اور جب کبھی کسی بزرگ کو کوئی روحانی مقام و مرتبہ ملتا ہے تووہ بالواسطہ یا بلاواسطہ سیّدنا غوث الاعظمؓ کے توسط سے ملتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
’’ جس کسی نے غوثیت اور قطبیت کے مراتب، سعادت، نعمت اور ولایت پائی ہے تو یہیں سے پائی ہے۔ دونوں جہاں کی کنجی ان کے ہاتھ میں ہے، جو ان کا منکر ہے وہ مرد ود اور ابلیس ہے اور جو اللہ کا بندہ، مومن، مسلمان اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی ہے وہ آپؓ کا غلام ہے، کوئی ان کی مریدی سے باہر نہیں اور جو باہر ہے اس کو معرفت کی راہ حاصل نہیں اور وہ سلب ہو جاتا ہے کیونکہ ان کا خطاب غوث الثقلین غوث الجن و الانس والملائکہ ہے۔ عقل مند کو اتنا ہی اشارہ کافی ہے ۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ نے اپنی الہامی تصنیف ’’رسالہ روحی شریف‘‘ میں سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو اپنا شیخ بتایا ہے جہاں سات ارواحِ سلطان الفقر کا تذکرہ کیا گیا۔ فرماتے ہیں:
’’ایک روح ہمارے شیخ حقیقت الحق۔ نورِ مطلق، مشہود علی الحق، محبوبِ سبحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ہیں‘‘ ۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کو فیضِ روحانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی روح سے بلاواسطہ اور براہِ راست پہنچا ہے اور درمیان میں ظاہری یا باطنی طور پر کوئی اور بزرگ وسیلہ نہیں بنے۔ (شانِ غوثِ الاعظم)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں :

سن فریاد پیراں دیا پیرا، میں آکھ سنانواں کینوں ھُو
تیرے جیہا مینوں ہور نہ کوئی، میں جیہیاں لکھ تینوں ھُو
پھَول نہ کاغذ بدیاں والے، دَر توں دَھک نہ مینوں ھُو
میں وِچ ایڈ گناہ نہ ہوندے باھو ،ؒ توں بخشیندوں کینوں ھُو

مفہوم:یا پیرانِ پیر سیّدنا غوث الاعظمؓ! میری التجا ذرا غور سے سنیے آپؓ کے علاوہ اور کون ہے جس سے میں عرض کرو ں۔ میرے جیسے تو لاکھوں آپؓکے در کے بھکاری ہیں لیکن آپؓ جیسا فیض رساں تو زمانے میں کوئی اور نہیں ہے۔ آپؓ سے التجا ہے کہ آپؓ میرے گناہوں، غلطیوں اور خطاؤں پر توجہ نہ کریں اور نہ ہی مجھے اپنے در سے دھتکاریں۔ میں آپؓ کا در چھوڑ کر کہاں جاؤں گا۔ اگر میرے دامن میں اتنے گناہوں کا بوجھ نہ ہوتا تو آپؓ جیسا کریم اور حلیم کیوں اور کسے بخشواتا اور کیوں خطاؤں سے در گزر فرماتا ۔ یہ میرے گناہ ہی ہیں جس کی وجہ سے آپؓ کی صفتِ حلیم و کریم حرکت میں آئی ہے۔
ازل سے لیکر ابد تک روحانی فیض سیّدنا غوث الاعظمؓ کی بارگاہِ عالیہ سے ہی پہنچ رہا ہے۔ حتیٰ کہ اب مقامِ ولایت کی عنایت انہی کے اختیار میں ہے خواہ سوالی کوئی دنیادار ہو یا طالبِ مولیٰ، سیّدنا غوث الاعظمؓ مشکل کشا ہیں۔ آج بھی جو سوالی عقیدت سے گیارہویں شریف کا ختم دلواتے ہیں وہ فیض ضرور پاتے ہیں کیونکہ سیّدنا غوث الاعظمؓ ہر عام وخاص کیلئے فیض رساں ہیں بشرطیکہ سوالی یا سالک صدق و خلوص سے ان کی بارگاہ میں جائز خواہش کا سوال کرے۔
ہر ولی اور ہر شیخ کو اس زمانے کے امام کے واسطے سے فیض حاصل ہوتا رہا ہے اور وہی امام ان کا ملجا اور ملاذ ہوتا ہے جب حضرت غوث الجن و الانس حضرت سیّد محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا دور اور زمانہ آیا تو یہ منصب عالی اصالتہ آپؓ کو تفویض اور موصول ہوا پس حضرت مذکور کے بعد اور کسی کو یہ عالی مرتبہ اصالتہ حاصل نہیں ہوا۔ پس اللہ تعالیٰ کا فیض جملہ اقطاب، اوتاد، ابدال، نجبا اور جملہ دیگر اولیا کو آپؓ ہی کے واسطے سے ملتا رہا ہے اور ملتا رہے گا، خواہ آپؓ کا زمانہ ہو یا آپؓ کے بعد کا زمانہ ، ہر زمانے میں ابدالآباد تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ (مکتوبات مجدد الف ثانیؒ )
سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ’’سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس‘‘ ہیں آپ مدظلہ الاقدس کی شان، روحانی مقام اور فقر کیلئے آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے مجلسِ محمدی ؐ سے آپ کو ’’شبیہ غوث الاعظم‘‘ کے لقب سے نوازا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس سیّدنا غوث الاعظمؓ کی شبیہ ہیں اور وہ فیض جو سیّدنا غوث الاعظمؓ کے توسط سے جاری تھا آج بھی آپ کے ذریعے جاری و ساری ہے بہت سے لوگ آپ کی نگاہِ مبارکہ سے مسلمان سے مومن، ناقص سے خالص، طالبِ دنیا سے طالبِ مولیٰ بنے۔ جیسے سیّدنا غوث الاعظمؓ کے زمانے میں فرقہ پرستی اور جاہلیت عام تھی ویسے ہی موجودہ دور میں آپ مدظلہ الاقدس نے عشقِ الٰہی کے درس کو فروغ دیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کو نئی زندگی بخشی اور لوگوں کو راہِ خداوندی کی جانب راغب کیا اور توحید کے اصل معنی سے سرفراز کیا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے باطنی تربیت مکمل ہونے کے بعد جب تلقین و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا تو سالکوں کے دلوں میں عشقِ الٰہی کا چراغ منور کیا طالبوں کے نفوس کا تزکیہ کر کے انہیں غیر اللہ سے پاک فرمایا اور یہی آپ مدظلہ الاقدس کے فقیرِ کامل اور سیّدنا غوث الاعظمؓ کے نقشِ قدم پر ہونے کی نشانی ہے۔
فرمانِ غوث الاعظمؓ ہے:
* تم کسی ایسے شیخِ کامل کی صحبت اختیار کرو جو حکمِ الٰہی اور علمِ لدنیّ کا واقف کار ہو اور وہ تمہیں اس کا راستہ بتائے۔ جو کسی فلاح والے کو نہ دیکھے گا فلاح نہیں پا سکتا۔ تم اس شخص کی صحبت اختیار کرو جس کو اللہ کی صحبت نصیب ہو۔ (الفتح الربانی مجلس 61)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی والدہ محترمہ عاشقِ رسول، محب اہلِ بیتؓ، اور پیرانِ پیر غوث الاعظمؓ کی محب اور عقیدتمند تھیں۔ والدہ محترمہ روایت کرتی ہیں کہ ایک بار انہیں خواب میں سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی زیارت ہوئی، انہوں نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے بارے میں فرمایا ’’یہ ہمارا ہے، یہ ہمارا روپ ہے ہم اس کے بارے میں تم سے سوال کریں گے۔‘‘ اس خواب کے بعد آپ مدظلہ الاقدس کی والدہ محترمہ نے آپ کی حفاظت اور تربیت پر زیادہ توجہ دینا شروع کردی۔
ایک مرتبہ ایک مجذوب آپ مدظلہ الاقدس کے گھر آیا تو آپ کی والدہ سے کہنے لگا ’’آپ کا یہ بیٹا بڑا سعید ہے۔اللہ پاک نے اپنی ایک خاص تقدیر کو اس کی پیشانی پر رقم کر دیا ہے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی باطنی زیرِ نگرانی اس کی خاص طرز پر تربیت کی جائیگی اور اسے زندگی کے تمام مراحل سے گزارا جائے گا۔‘‘ (سلطان العاشقین)
معلوم ہوا کہ آپ مدظلہ الاقدس کی باطنی تربیت سیّدنا غوث پاکؓ نے فرمائی کیونکہ تمام سروری قادری مشائخ کی تربیت کی ذمہ داری حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے ذمہ ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ سیّدنا غوث الاعظمؓ کی شان میں بیان فرماتے ہیں:
’’ شاہِ جیلان حضرت محی الدینؓ سر سے قدم تک انوار قربِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے تھے اور ابتدا سے انتہا تک فقر کا بارِ گرانی اٹھائے ہوئے تھے۔ آپؓ کو خود حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے دستِ بیعت فرمایا اور خزانہ فقر آپؓ کے توسط سے عطا کیا جاتا ہے اس سے مرشد کامل جب طالب کی تربیت مکمل کر لیتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضری سے قبل تربیت کے لیے پیرانِ پیر سیّدنا غوث الاعظمؓ کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور آپؓ کی مہر کے بغیر کوئی ولایت کے مرتبہ پر فائز نہیں ہوسکتا ۔‘‘ ( اقتباس از ’’حیات و تعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ‘‘)
غرضیکہ کوئی بھی سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی منظوری کے بغیر ولی نہیں بن سکتا اور نہ ہی کوئی تلقین و ارشاد کی مسند پر فائز ہوسکتا ہے۔
غوث الاعظمؓ درمیان اولیا
چوں محمدؐ درمیان انبیا
شبیہ غوث الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی اس عظیم ذمہ داری کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی مرید ہونے کے ناتے مَیں اعلانیہ اس بات کی گواہی دیتی ہوں کہ سیّدنا غوث الاعظمؓ کا فیض صرف آپ مدظلہ الاقدس کے در سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل سے روح کو حیات نصیب ہوتی ہے اور عشقِ الٰہی کا بیج دل میں لگتا ہے بلاشبہ آپ مدظلہ الاقدس سیّدنا غوث الاعظمؓ کی طرح راہِ یقین کی دلیل ہیں اور سیّدنا غوث الاعظمؓ کے خاص فضل و کرم اور فیض و برکت کے باعث آپ مدظلہ الاقدس موجودہ دین کے راہبرو راہنما ، فقر کے سلطان، فقیرِ کامل، مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کے رتبے پر فائز ہیں۔


اپنا تبصرہ بھیجیں