باب فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ – Bab e Faqr Hazrat Ali Karam Allah Wajhu

Spread the love

Rate this post

باب فقر ۔۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ

وہ کون ہے جو نقطہ اُم الکتاب ہے
مولا صفت ہے حیدر و اسد خطاب ہے
دیکھے جو اس کا رخ تو خجل آفتاب ہے
وہ بوتراب ہے
تاریخِ اسلام میں جب بھی عشق و رفاقتِ مصطفی ؐ، شجاعت و بہادری اور ذہانت و فطانت کا ذکر کیا جائے تو ایک نام نمایاں ہو گا اور وہ نام فاتحِ خیبر، بابِ فقر خلیفۂ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ ربّ تعالیٰ کی طرف سے وہ انعام یافتہ ہستی ہیں جو عشقِ مصطفیؐ سے سرشار ہیں۔ آپؓ کی ساری زندگی آقائے دوجہاں کی رفاقت میں گزری۔ آپ کرم اللہ وجہہ نے کمسنی میں ہی رفاقتِ یار کا سہرا پہنا اور اپنی ساری زندگی شجاعت و بہادری اور وفا و قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وفا و عشق کی مثالی زندگی گزاری اسی لیے آپؓ کو فقر کی امانت کا مختار بنایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقر ہیں تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ۔ آپؓ کی ذات بابرکت کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آپؓ کے متعلق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’علیؓ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے‘‘۔
امیر المومنین امام المتقین، مشکل کشا، شیرِ خدا، امام عارفین، تاجدارِ اولیا، رفیقِ پیغمبر ، فاتح خیبر کی بلندشان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
* من کنت مولٰی فھذا علی مولا
ترجمہ: ’’جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے‘‘۔ 
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ سے فرمایا ’’یہ علیؓ بن ابی طالبؓ ہے اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لیے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰؑ کیلئے حضرت ہارون ؑ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ پھر ایک مقام پر فرمایا ’’علیؓ مجھ سے ہے اور میں علیؓ سے ہوں‘‘ ۔
جتنے مناقب حضرت علیؓ ابن ابی طالب کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہے کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علیؓ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔ آپؓ کی امتیازی صفات اور کمالات کے بارے میں لکھنا ایسا ہی ہے جیسا سورج کو چراغ دکھانا ۔آپؓ فضائل و کمالات کا ایسا بیکراں سمندر ہیں جس میں انسان جتنا غوطہ لگاتا جائے اتنے ہی فضائل کے موتی حاصل کرتا جائے۔
کسی را میسر نہ شد این سعادت 
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات مبارکہ بے شمار امتیازی خصوصیات کا مرقع ہے لیکن ان میں سے ایک منفرد خصوصیت یہ ہے کہ آپؓ کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی اس لئے آپؓ کو مولودِ کعبہ بھی کہا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ شرف پہلے کسی کو نہیں بخشا۔ روایت ہے کہ آپؓ کی والدہ ماجدہ حضر ت فاطمہؓ بنت اسد بن ہاشم خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں کہ دردِ زہ شروع ہوگیا اسی وقت خانہ کعبہ کی دیوار شق ہوئی جس کو کوئی اور نہ دیکھ سکا۔ آپؓ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوگئیں اور عملِ ولادت خانہ کعبہ کے اندر انجام پایا۔ حضرت علیؓ 30 عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ 12 یا 13 رجب بروز جمعتہ المبارک پیدا ہوئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولادت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈالا اور اپنی زبان چوسنے کیلئے ان کے منہ میں رکھی۔
آپ کرم اللہ وجہہ کا نام مبارک ’’علی‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تجویز فرمایا۔ آپؓ کے القاب اسد اللہ، حیدر اور مرتضیٰ اور کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ تراب کے معنی مٹی کے ہیں ابوتراب یعنی مٹی کا باپ۔ یہ کنیت آپؓ کو بہت پسند تھی اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد نبوی میں تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ زمین پر سو رہے ہیں اور پورا جسم گرد آلود ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’ابو تراب اُٹھو‘‘ اس دن سے یہ کنیت مشہور ہوگئی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہاشمی خاندان کے وہ پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والدہ دونوں ہاشمی ہیں۔ آپؓ کے والد ابو طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے۔ جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔
خداکی سب سے بڑی نعمت اور سعادت جو آپ کرم اللہ وجہہ کو حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ حضرت علی کی تربیت و پرورش خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ۔ جب حضرت علیؓ تین سال کے تھے اس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا۔ حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے معاشی مشکلات کافی زیادہ تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے مشورہ کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت ابوطالبؓ کے ایک بچے کی کفالت اپنے ذمے لے لے تاکہ ان کی مدد ہوجائے اسطرح حضرت عباسؓ نے حضرت جعفرؓ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی اور حضرت علیؓ کی تربیت براہِ راست پیغمبر اسلام کے خُلق اور بزرگی کے زیر سایہ ہونے لگی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’تم لوگ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ساتھ میری انتہائی قربت اور ان کی گود میں تربیت کو اچھی طرح جانتے ہو جب میں پیدا ہوا تو مجھے اپنی آغوش میں لیا، مجھے اپنے سینے پر لٹاتے، میری کفالت کرتے، مجھے اپنے جسم کے ساتھ مس کرتے، اپنی معرفت کی خوشبو سے معطر فرماتے وہ چیزوں کو اپنے منہ سے چبا چبا کر مجھے کھلاتے اور انہوں نے ہمیشہ میرے قول و فعل کو درست و یکساں پایا۔‘‘
حضرت علیؓ جس دن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سرپرستی میں آئے اس دن سے لیکر شہادت کی رات تک کسی وقت اور کسی بھی لمحہ دفاعِ رسالت اور دینِ الٰہی سے پیچھے نہیں ہٹے۔ آپؓ نے دس سال کی عمر میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ شروع میں اسلام کی تبلیغ خفیہ طور پر جار ی رہی۔ تین سال بعد اللہ نے اپنے پیارے حبیب کو فرمایا ’’(اے پیغمبرؐ) اپنے رشتے داروں کو عذابِ آخرت سے ڈرائیے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم کی تعمیل کیلئے اپنے تمام قرابت داروں کو کھانے کی دعوت پر بلایا اور حق کا پیغام دیا۔ سب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جھٹلا دیا۔ حضرت علیؓ جو ابھی سنِ بلوغت کو پہنچے تھے فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اور بلا خوف خطر فرمایا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں آپ کی مدد کروں گا اور جو شخص آپ سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا‘‘۔ یہ بات سن کر سب لوگ مذاق اڑانے لگے ان کی نظر حضرت علیؓ کی کم عمری پر تو تھی لیکن وہ آپؓ کی شخصیت کی مضبوطی اور ایمان کی قوت سے لا علم تھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ہے کہ شبِ ہجرت مشرک دشمنوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کی سازش بنائی (نعوذ باللہ) تو آپؓ نے پوری وفاداری اور شجاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بستر پر سو کر انکی سازش کو ناکام بنا دیا۔ ہجرت کی رات تمام مشرکینِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر مبارک کا گھراؤ کر لیا تاکہ جیسے ہی آپ باہر تشریف لائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کر دیا جائے (نعوذ باللہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بستر پر سو جائیں اور لوگوں کو ان کی امانتیں لوٹا کر پھر مدینہ تشریف لے آئیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فوراً اس بات پر خوشی سے آمادہ ہوگئے۔ یہ عمل آپؓ کا آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق کی مثال ہے۔ حضرت علی شیرِ خدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی چادر اوڑھ کر ان کے بستر پر سوگئے۔ صبح جب مشرکین نے آپؓ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بستر پر پایا تو انہیں اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی۔ انہوں نے آپؓ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں پوچھا لیکن آپؓ نے انہیں کچھ نہ بتایا۔ آپؓ نے سب کو ان کی امانتیں لوٹا دیں اور خود بہ پیادہ اور تن تنہامدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ابھی قبا میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی المرتضیٰؓ شیر خدا پہنچ گئے اگرچہ پاؤں میں آبلے پڑ چکے تھے، لباس تار تار تھا، سفر کی صعوبتوں نے نڈھال کر رکھا تھا لیکن روح مطمئن تھی کہ منزلِ عشق پا چکی تھی۔ اللہ کے رسول نے راہرو منزلِ عشق کو دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ آنکھوں میں اشک امڈ آئے لیکن حضرت علیؓ کی محبت کے جذبات ان پر غالب آگئے۔آنکھیں فرطِ محبت سے چمکنے لگیں بھائی کو سینے سے لگا لیا اور بے شمار دعاؤں سے ان کا دامن بھر دیا ۔ حضرت علیؓ کی سفر کی ساری تکلیفیں مٹ گئیں۔ (خلفائے راشدین)
بے شمار فضیلتوں کے ساتھ یہ فضیلت بھی آپؓ کے حصہ میں آئی کہ سیّدۃ النساء حضرت فاطمہؓ جو محبوبِ خداکی سب سے محبوب اور لاڈلی صاحبزادی اور خاتونِ جنت ہیں‘ کا نکاح آپ کرم اللہ وجہہ سے ہوا۔ حضرت فاطمہؓ کیلئے قریش کے اعلیٰ خاندانوں سے متعدد سرداروں نے رشتہ طلب کیا لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکوت فرمایا اور جواب دیا کہ جواللہ چاہے گا وہی ہوگا۔ صحابہ کرامؓ کی حوصلہ افزائی کرنے پر حضرت کرم اللہ وجہہ نے دستِ سوال دراز کیا جس کو آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شرفِ قبولیت بخشا اور آپ کا نکاح دخترِ سرورِ کائنات سے رجب 1 ھ میں ہوا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کر دوں۔
میاں محمد بخش فرماتے ہیں:
آلِ نبی اولاد علیؓ دی سیرت شکل انہاں دی 
نام لیاں لکھ پاپ نہ رہندے میل اندر دی جاندی
یہ امتیاز بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حاصل ہو اکہ آلِ نبی ؐ اولادِ علیؓ ہے۔ تمام لوگوں کی اولاد یا نسل اس شخص کی پشت میں رکھی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پشت میں رکھا حضرت فاطمتہؓ الزہرا سے حضرت علیؓ کی اولاد آلِ رسول ؐ ہے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے چلی۔ آپ کرم اللہ وجہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہلِ بیتؓ میں بھی شامل ہیں بلکہ آپؓ کا پورا گھرانہ ہی اہلِ بیتؓ ہے۔ حضرت علیؓ بن ابی طالب کی امتیازی خوبیوں کا علم ان الفاظ مبارک سے بخوبی ہو جاتا ہے جو آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپؓ کے بارے میں فرمائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اے علیؓ ! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کیلئے جائز نہیں کہ حالتِ جنابت میں اس مسجد میں رہے۔‘‘ جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ قائم کیا گیا تو حضرت علیؓ کو پیغمبرِ اسلام نے اپنا دنیا و آخرت میں بھائی قرار دیا۔
آپ کرم اللہ وجہہ کی بہادری اور شجاعت میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ سیّدنا علی المرتضیٰ کرم ا للہ وجہہ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ ہر معرکہ میں حضرت علیؓ نے اپنی شجاعت و بہادری اور فدا کاری کا لوہا منوایا اور بدر واحد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرأت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپؓ کی شجاعت کا اعتراف کرتے ہوئے آپؓ کو حیدر کرار اور آپؓ کی شمشیر کو ذوالفقار کے خطاب سے نوازا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قابلِ فخر ورثہ ’’فقر‘‘ کے وارث، امین، اسے زندہ رکھنے والے اور اُمت کی طرف منتقل کرے والے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے بہت سے واقعات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی احادیث اس امر کی نوید ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باطنی خلیفہ اور ان کے ورثۂ فقر کے امین ہیں ۔ یہ عظیم ورثہ جس پر آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فخر کیا آپؓ کے حصہ میں آیا۔ حضرت عبداللہ بن حکیم ؑ سے روایت ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے شبِ معراج وحی کے ذریعے مجھے حضرت علی کی تین صفات کی خبر دی کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں متقین کے امام ہیں اور نورانی چہرے والوں (اہلِ فقر) کے قائد ہیں۔ (امام طبرانی)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بابِ علم

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بے پایاں شجاعت کے مالک، بابِ فقر اور دیگر عظیم اوصاف کے ساتھ علم و فضل کے میدان میں بھی بہت بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ آپؓ علم کا بے پایاں سمندر تھے آپؓ کی علمی رفعتوں اور عظمتوں کیلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فرمان کافی ہے:
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو تمام کائنات کے ظاہری و باطنی علوم سے مشرف فرمایا۔ فقر میں علم سے مراد علم معرفتِ الٰہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو جاننے اور پہچاننے ، اللہ کی رضا ، اللہ کی تخلیقات کو جاننے کا علم ہے۔ جس کو معرفتِ الٰہی حاصل ہوجائے اس سے دنیا کا کوئی علم بھی مخفی نہیں رہتا ۔ آپؓ نے فرمایا ’’ مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حروفِ مقطعات حٰمعسق کی تفصیل میں جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب تعلیم کردیا‘‘ آپؓ نے فرمایا ’’لوگو! مجھ سے آسمان کے راستے پوچھو میں ان کو زمین کے راستوں سے بھی زیادہ جانتا ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا علم و حکمت دس حصوں میں تقسیم ہوئی ہے جس میں نوحصے علیؓ سے مخصوص ہیں اور ایک حصہ دوسرے انسانوں کے لئے ہے اور ایک حصے میں بھی علیؓ اعلم الناس ہیں۔‘‘( ینابیع المودہ، باب 1)
ذاتِ خداوندی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم و معرفت میں وہ بلند مقام و مرتبہ عطا کیا ہے کہ تمام اولیا و بزرگانِ دین انہیں اپنا امام اور مرشد مانتے ہیں۔ کسی شخص نے حضرت مولانا رومؒ سے پوچھا کہ آپؒ حضرت علیؓ کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ان کی ذات سے پوچھتا ہے تو وہ لَےْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٍِ ہے اور اگر صفات سے پوچھتا ہے تو وہ ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَط عَالِمُ الْغَےْبِ وَالشَّھَادَۃِ ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِےْم (الحشر۔ 3 ) ہے۔ اگر ان کی قوت سے پوچھتا ہے تو اِنَّمَا اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَےْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَےَکُوْنُ (سورۃ ےٰسٓ۔5 ) ہے اور اگر ان کا فعل پوچھتا ہے تو وہ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدْ ہے۔‘‘(کتاب الفوائد)
حضرت علیؓ کی راہنمائی کے بغیر کوئی بھی علمِ معرفت کے شہر میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ہر طالبِ مولیٰ کیلئے راہِ فقر میں کامیابی کیلئے اس دروازے سے گزرنا پڑتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ نے اپنی کتب میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہیں مجلسِ محمدی تک پہنچانے والے حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔
ہر طالبِ مولیٰ کیلئے حضرت علیؓ علم و ہدایت کا سر چشمہ ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’جب کوئی طالبِ مولیٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں داخل ہوتا ہے تو اس پر چار نظروں کی تاثیر وارد ہوتی ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کی نظر سے اس کے وجود میں صدق پیدا ہوتا ہے، جھوٹ اور نفاق اس کے وجود سے نکل جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی نظر سے عدل اور محاسبہ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے وجود سے خطرات و ہوائے نفسانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کی نظر سے ادب و حیا پیدا ہوتی ہے اور اس کے وجود سے بے ادبی و بے حیائی ختم ہو جاتی ہے اور حضرت علیؓ کی نظر سے علم و ہدایت اور فقر پیدا ہوتا ہے اور اس کے وجود سے جہالت اور حبِ دنیا کا خاتمہ ہو جاتا ہے اس کے بعد طالب لائقِ تلقین بنتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے دست بیعت فرما کر مرشدی کے لاتحف ولاتحزن مراتب عطا فرماتے ہیں۔‘‘ (شمس العارفین)
وہ بابِ علم فاتحِ بدر و حنین ہے
ہر قلبِ مطمئنہ کی ٹھندک ہے چین ہے
حضرت ابنِ عبا سؓ فرماتے ہیں ایک رات حضرت علیؓ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی ’’ب‘‘کے نقطہ کی شرح فرمانے لگے تو صبح ہوگئی مگر وہ تفسیر پوری نہ ہوئی۔ حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ جو امت کے بڑے عالم شمار کئے جاتے ہیں اور قرآن کے پہلے مفسر ہیں‘ فرماتے ہیں ’’میرا علم حضرت علیؓ کے علم کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں چھوٹا سا گڑھا‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ قرآنِ کریم کے حافظ تھے اور اس کے معانی و مطالب پر انہیں عبور حاصل تھا۔ ام المومنین حضرت اُمِ سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سنا ’’علیؓ اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہ دونوں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر آئیں گے۔‘‘ (حاکم ۔ طبرانی) 
جو آیاتِ قرآنی آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئیں ان میں سے کوئی آیت ایسی نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ کو تعلیم نہ فرمائی ہو۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’خد اکے بارے میں مجھ سے پوچھ لو کوئی ایسی آیت نہیں جس کو میں نہ جانتا ہوں جو آیات شب و روز میں نازل ہوئیں ،صحراؤں اور پہاڑوں پر نازل ہوئیں میں سب کو جانتا ہوں‘‘۔ ایک اور مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’ اگر میرے لیے مسند بچھائی جائے اور میں اس پر بیٹھوں تو اہلِ توریت کیلئے ان کی توریت سے، اہلِ انجیل کیلئے ان کی انجیل سے اور اہلِ زبور کیلئے ان کی زبور سے اور اہلِ قرآن کیلئے ان کے قرآن سے حکم کروں۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فصاحت و بلاغت میں بے مثل تھے۔ ’’نہج البلاغہ‘‘ آپ کرم اللہ وجہہ کے علمِ معرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فنِ تقریر کے ساتھ فنِ تحریر میں بھی آپ کرم اللہ وجہہ کو کمال حاصل تھا۔ لکھتے تو کاغذ کا دامن خوش نما پھولوں سے جگمگا اُٹھتا ۔
وہ علم میں یگانہ ہے حکمت میں فرد ہے
تلوار کا دھنی ہے شجاعت میں فرد ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ تینوں خلفائے راشدین کے دور میں شہر کے قاضی اور مجلسِ شوریٰ کے اہم رکن تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کاحل اور فیصلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی سناتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں فتویٰ دینے کا حق صرف حضرت علیؓ کو حاصل تھا۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے ایک عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جس نے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ جنا تھا لیکن حضرت علیؓ نے انہیں روکتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرمائی:
ترجمہ: بچہ کا حمل اور دودھ چھڑانا (کل) تیس مہینوں کا ہے (الاحقاف۔ 15 ) پھر واضح فرمایا کہ سورۃ احقاف کی آیت کے مطابق تیس مہینوں میں سے چوبیس ماہ یا دو برس دودھ پلانے کے ہوئے اور چھ ماہ حمل کے اسطرح ثابت کیا کہ چھ ماہ کا حمل ممکن اور جائز ہو سکتا ہے اس پر حضرت عمرؓ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور فرمایا ’’ اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمرؓ ہلاک ہوگیا ہوتا۔ حضرت عمرؓ اکثر معاملات کو حل کرنے کیلئے حضرت علیؓ سے رجوع کرتے اور فرمایا کرتے ’’ علیؓ !آپؓ کے بعد اللہ مجھ کو زندہ نہ رکھے۔‘‘
سرکارِ دو عالم کے عہد میں تمام معلومات، تحریری دستاویزات اور دیگر خطوط آپؓ ہی تحریر کر تے تھے۔یہاں تک کہ معاہدہ صلح حدیبیہ جو تاریخِ اسلام میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس معاہدے کے اہم نکات بھی حضرت علیؓ نے ہی تحریر کیے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فصاحت وبلاغت میں سید البلغا اور امام الفصحا تھے عرب و عجم کے فصحا و بلغا آپؓ کے خطبات کو سن کر دنگ رہ جاتے اور کچھ بولنے کی جرأت نہ کر پاتے۔ آپؓ کو علمِ کلام،علمِ صرف ونحو، علمِ تجوید، علمِ طب، علمِ تاریخ،علمِ حساب ، علمِ تعبیر رؤیا، علمِ نجوم ، علمِ فقہ، علم الاعداد غرضیکہ ہر طرح کے علم خاص طور پر علمِ فقر جوان تمام علوم کا جامع اور ماخذ ہے‘ پر مکمل عبور حاصل تھا۔ ان سب علوم کیلئے آپؓ کے استاد خود آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں جو کہ علم و معرفت اور ہدایت کا سر چشمہ ہیں۔ حضرت علیؓ کے فضائل بیان کرتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت کے ساتھ برگزیدہ کیا اور علیؓ کو علم و شجاعت و فصاحت کے ساتھ ممتاز فرمایا اور ہمارے لیے اپنے پاک ناموں سے دو نام مشتق کیے پس اللہ تعالیٰ محمود ہے اور میں محمد ؐ ہوں اور اللہ تعالیٰ ’’اعلیٰ‘‘ ہے اور یہ علیؓ ہے۔‘‘ 
حضرت علیؓ کی روایت احادیث کی تعداد 586 ہے حضرت علیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ اپنے رفقائے محترم اور ہم عصروں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عمر فاروقؓ اور اپنی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہؓ سے بھی روایتیں کی ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علمی اوصاف کا مماثل کوئی نہیں۔ عربی زبان کے حوالے سے ان کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ آپؓ نے طریقہ صرف و نحو کے اصول مرتب کئے۔ آپ کو عربی زبان پر انتہا کا عبور حاصل تھا آپؓ کو عربی قواعد کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ آپؓ کی سرپرستی اور رہنمائی میں آپؓ کے ایک شاگرد نے عربی قواعد پر ایک رسالہ مرتب کیا تھا۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ شعر و سخن میں بھی بلند مرتبہ کے حامل تھے آپؓ کے اشعار حکمت و دانش کے بھرپور خزانے اپنے دامن میں سمیٹے ہوتے۔ آپؓ کے اشعار سے مردہ دل زندہ ہو جایا کرتے تھے ۔آپؓ کے اقوالِ زریں آج تک لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کی روشنی فراہم کرتے ہیں اور فکر و عمل کی دعوت دیتے ہیں ۔
21رمضان المبارک 40 ہجری کو اس دنیا فانی کو خیرباد کہتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ابنِ ملجم نے17 رمضان المبارک کو امیر المومنین کی پیشانی پر زہر آلود خنجر سے وار کیا۔ وار اس قدر شدید تھا کہ آپؓ زخمی ہو گئے اور جامِ شہادت نوش کر کے واصل باللہ ہوئے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں امام ہیں جو بھی طالبِ مولیٰ صدقِ دل سے آپ مدظلہ الاقدس دستِ مبارک پر بیعت کرتا ہے آپ مدظلہ الاقدس اس کا تزکےۂ نفس کر کے اس کا روحانی تعلق حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قائم کروا دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت سے ہمارے دلوں کو مزّین فرمائے۔ آمین
*****


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں