شبِ برات | Shab e Barat


Rate this post

 شبِ برات

تحریر: مسز میمونہ اسد سروری قادری

شعبان کی پندرھویں یعنی14 اور 15 شعبان کی درمیانی رات شب ِ برات ہے۔
شب برات کے معنی ہیں آزادی والی رات۔ اسے شب ِتوبہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں گناہوں کی توبہ قبول کی جاتی ہے اور گناہوں اور برائیوں سے آزادی ملتی ہے۔
اس رات کو شب ِ رحمت بھی کہتے ہیں۔ اس میں اللہ پاک رحمتیں نازل فرماتا ہے اُن کے لیے جو اپنے   گناہوں سے توبہ کرتے اور اللہ پاک سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے سال کے بارہ مہینے بنائے اور اُن میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ اُن میں ماہِ رمضان سب سے افضل مہینہ ہے۔ پھر راتوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی اور ان میں شب ِ قدر اور شب ِ برات کو سب راتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ شب ِ برات کو لیلۃ المبارکہ بھی کہتے ہیں۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

حٰمٓ۔ وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ۔ اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ۔  فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ۔ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ۔ رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ ط
اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَاص اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ۔ 
 ( الدخان۔ 1-7) 

ترجمہ: حٰمٓ! اس روشن کتاب کی قسم، بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اُتارا ہے بیشک ہم ڈرسنانے والے ہیں۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بارگاہ کے حکم سے، بیشک ہم بھیجنے والے ہیں۔ (یہ) آپ کے ربّ کی طرف سے رحمت ہے، بیشک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے، آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے (اس کا) پروردگار ہے بشرطیکہ تم یقین رکھنے والے ہو۔

شبِ برات کی فضیلت  

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اے عائشہؓ!جانتی ہو اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ عرض کی یا رسولؐ اللہ! بتائیے اس میں کیا ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا اس رات میں یہ ہوتا ہے کہ آدم کی اولاد میں سے جو شخص پیدا ہو گا اور اس سال میں مرے گا اس کا مرنا اور پیدا ہو نا لکھا ہو تا ہے۔ جو فرشتے اِن کاموں پر مقرر ہیں اُن کواطلا ع دی جاتی ہے اور جتنا جتنا رزق مخلوق کو اِس برس ملے گا سب لکھا ہو تا ہے اور اس چودھویں رات کا سورج ڈوبتے ہی اللہ تعالیٰ اِس دُنیا کے آسمان پر تشریف لاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ کوئی نیک بندہ ایسا ہے جو ہم سے بخشش مانگے تو اس کو بخش دیں، کوئی رزق مانگے تو ہم اِس کو رزق دیں، کوئی مصیبت کا مارا دعاکرے تو اس کی مصیبت دور کریں۔ اسی طرح صبح ہونے تک ارشاد فرماتا ہے۔ پس بندوں کو چا ہیے کہ اس رات میں خوب عبادت کریں اور اپنے گناہو ں کی معافی مانگیں اور اس دن روزہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنی مہر بانی سے بے شمار بندوں کو بخشتا ہے سوائے کا فر،مشرک، کینہ پرور اور قاتل کے۔ (با غ جنت )
اُمت ِ مسلمہ کے خیر القران یعنی صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اُٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ یہ فضیلت والی رات ہے جس میں کثرت سے عبادت کرنا باعث ِ اجر وثواب اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
اس رات میں عبادت کرنے کا کوئی خاص طریقہ نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے خاص طرح سے نوافل ادا کرنے کا طریقہ وضع کر لیا ہے مثلاً پہلی رکعت میں  فلاں سو رۃ اتنی مرتبہ پڑھی جائے اور دوسری رکعت میں فلاں سورۃ اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ۔ اس فضیلت والی رات میں کسی بھی طرح سے عبادت کی جا سکتی ہے مثلاً قرآنِ کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، اسم اللہ ذات کا تصور کریں اور کثرت سے استغفار کرتے ہوئے اپنے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔ یہ اللہ ہی کی شان ہے کہ وہ گناہگاروں اور مجرموں کو معاف کر دیتا ہے اور یہ شانِ کریمی شب ِ برات کو پوری آب وتاب سے جلوہ گر ہو تی ہے ۔

روزے کا اہتمام کرنا

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ماہِ شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس تمام مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باقاعدگی سے روزے رکھتے۔ تاہم اس بابرکت مہینے کی فضیلت کے پیشِ نظر جو لوگ مہینے بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے وہ دو دن یعنی چودہ اور پندرہ شعبان یا پندرہ اور سولہ شعبان کو روزہ ضرور رکھتے ہیں۔ 
اس شب ِ مبارکہ میں اللہ پاک ہر انسان کے گزشتہ سال کے اعمال یعنی شعبان سے شعبان تک کو اکٹھا کرواتاہے اور آئندہ سال 15 شعبان تک کے امور کو فرشتوں کے سپرد کرتا ہے جو کہ انسان کا مقدر ہیں۔تاہم اس بابرکت رات میں خلوصِ دل سے مانگی گئی دعاؤں کی بدولت اللہ پاک انسان کی لکھی گئی تقدیر کو بدلنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ 

قبور کی زیارت کے لیے جانا

شب ِ برات میں لوگ اپنے عزیز و اقارب کی قبور پر زیارت اور دعا کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ اس رات میں خصوصی اہتمام کے ساتھ زیارتِ قبور کے لیے جانا ضروری عمل نہیں اور نہ ہی یہ سنت سے ثابت ہے تاہم زیارت اور دعا کے لیے جانے میں حرج نہیں۔

 کس کی توبہ قبول نہیں ہوتی؟

شب ِ برات میں ان لوگوں کو نہیں بخشا جاتا یا ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوں جب تک کہ وہ مکمل طور پر ان گناہوں سے سچے دل سے توبہ نہ کریں اور آئندہ کے لیے باز رہیں۔ احادیث مبارکہ میں ان کا بیان کچھ یوں ہے:
 شرک کرنے والا۔ یعنی مشرک جو اللہ پاک کے ساتھ کسی کو شریک بنائے اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اس سے دور نہ جائے۔ (سنن ابن ماجہ ج 1۔ ص 445۔ رقم 1390)
بغض، عداوت،کینہ ،حسد رکھنے والا۔ یعنی اپنے دل سے بغض، عداوت اور کینہ و حسد کو جب تک دورنہ کرے اِس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ (مسند احمد بن حنبل،ج 2 ۔ ص 176)
قاتل۔ اللہ پاک کی مخلوق کا خون بہانے والے یا نا حق قتل کرنے والے کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی جب تک کہ وہ مکمل توبہ نہ کرے۔ (شعب الایمان للبیہقی،  ج 3ص 384رقم3837)
قطع رحمی کرنے والا۔ یعنی اپنے خونی رشتوں کا حق ادا نہ کرنے والا اور اپنے خونی رشتوں سے قطع تعلق رکھنے والا جب تک کہ پلٹ کر ان سے رحم والا معاملہ نہ کرے اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ (شعب الایمان للبیہقی، ج 3، ص 384، رقم 3837)
تکبر کے ساتھ اپنے کپڑوں کو نیچے لٹکانے والا۔ ایسے لوگ جو دوسروں پر اپنا رعب جمانے کے لیے اور اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لیے اپنے کپڑوں کو لمبا رکھتے اور لٹکاتے ہیں جیسا کہ پہلے زمانوں میں ہوتا تھا‘ ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آجائیں ۔
شرابی۔ اس وقت تک شرابی کی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ شراب ترک کرکے توبہ نہ کرے۔
چغل خور۔ چغلی کرنے والے کو بھی اس مبارک رات میں بخشا نہیں جاتا جب تک کہ وہ اپنی اِس عادت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ نہ دے۔  (شعب الایمان3837-384-3-)
مندرجہ بالا گناہوں سے نجات کے لیے اللہ پاک نے ہمیں شب ِ برات عطا فرمائی تاکہ ہم اِس رات کو اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ پاک سے مغفرت کے طلب گار بنیں۔ 

 کامل توبہ کا حصول

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان آج کے اس پُرفتن دور میں کامل توبہ کیسے کرے؟ بلاشبہ ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں جن کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہوگا اور وہ اللہ کے حضور توبہ بھی کرتے ہوں گے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دنیاداری میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ جانے انجانے میں پھر انہی گناہوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں جن سے مکمل طور پر کنارہ کشی اور توبہ کی ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اندر موجود نفس ِ امارہ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں ہمیں گناہوں پر اکستاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے اسے ظالم دیو کا نام دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ فقیر ِ کامل ہی وجود میں موجود اس خفیہ چور کو قابو کر کے اور اپنی نگاہِ کامل سے تزکیہ کر کے امارہ سے مطمئنہ بنا سکتا ہے۔  

باجھ فقیراں کسے نہ ماریا باھُوؒ، ایہہ ظالم چور اندر دا ھُو

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ اقدس کے زیر ِ سایہ تحریک دعوت فقر اس بات کے لیے کو شاں ہے کہ عوام الناس کو شانِ دین بتائی جائے اور اس سلسلہ میں خانقاہ سلسلہ سروری قادری 4-5/A ایکسٹینشن ایجوکیشن ٹاؤن وحدت روڈ لاہور میں باقاعدگی سے روحانی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے اورنفوس کی پاکیزگی اور معرفت ِ الٰہی کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اسم اللہ ذات کی نعمت سے بھی نوازتے ہیں۔ آئیے! اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور کیا معلوم ہمارے نام آئندہ سال کی اس فہرست میں شامل ہوں جن کا سفر عالم ِ ناسوت میں مکمل ہو گیا ہے پس خلوصِ نیت سے توبہ کریں اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کے لیے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہو کر اپنے مقصد ِ حیات یعنی معرفت ِ الٰہی حاصل کریں۔                                                                                                                                                                                                                                              


اپنا تبصرہ بھیجیں